سوال:
جو بیوہ عورت دوسری شادی نہیں کریگی، وہ حضور کے ساتھ جنت میں جائیگی، کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ اور آج کے زمانہ کے اعتبار سے کیا حکم ہے؟
جواب: سوال میں ذکرکردہ روایت ’’ضعیف‘‘ہے ،البتہ چونکہ اس کے شواہد ومتابعات موجود ہیں ،جس کی وجہ سے ایک درجہ اس روایت کو تقویت مل جاتی ہے،لہذا اس روایت کو بیان کیا جاسکتا ہے۔اس روایت کا ترجمہ ،تخریج اور اسنادی حیثیت مندرجہ ذیل ہے۔
ترجمہ :عوف بن مالک اشجعی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں اور وہ بیوہ عورت، جس کے رخسار سیاہ پڑھ گئے ہوں، دونوں قیامت کے دن اس طرح ہوں گے“ روای حدیث، یزیدبن زریع نے شہادت کی اور بیچ کی انگلی کی طرف اشارہ کیا( کہ جس طرح یہ دونوں انگلیاں ایک دوسرے کے قریب ہیں)”اور (سیاہ رخساروں والی عورت کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ اس سے مراد) وہ عورت، جو اپنے شوہر کے مرجانے کی وجہ سے بیوہ ہوگئی ہو اور وہ حسین و جمیل اور صاحب جاہ و عزت ہونے کے باوجود محض اپنے یتیم بچوں کی پرورش اور ان کی بھلائی کی خاطر دوسری شادی نہ کرے یہاں تک کہ وہ بچے بڑے ہو جائیں یا وفات پاجائیں“۔
تخريج الحديث:
۱۔امام ابوداؤد(م275ھ)نے’’سنن أبي داؤد‘‘(7/460،رقم الحديث:5149،ط:دارالرسالة العالمية)میں ذکرکیاہے۔
۲۔امام احمدبن حنبل (م241ھ)نے’’مسندأحمد‘‘(39/433،رقم الحديث:24006، 24008،ط:مؤسسة الرسالة) میں ذکرکیاہے۔
۳۔امام بخاری (م256ھ)نے’’الأدب المفرد‘‘(62،رقم الحديث:141،ط:دارالبشائرالإسلامية) میں ذکرکیاہے۔
۴۔ حافظ ابن أبی الدنیا(م281ھ)نے’’النفقة على العيال‘‘(1/232،رقم الحديث:86،ط:دارابن قيم) میں ذکرکیاہے۔
۵۔حافظ ابوبكرخرائطی (م 327ھ)نے’’مکارم الأخلاق‘‘(210،رقم الحديث:635،ط:دارالآفاق العربية) میں ذکرکیاہے۔
۶۔امام طبرانی (م360ھ)نے’’المعجم الکبیر‘‘ (18/56،رقم الحديث:103،ط:مكتبة ابن تيمية) میں ذکرکیاہے۔
۷۔امام بیہقی (م458ھ)نے’’الآداب‘‘(12،رقم الحديث:57،ط: مؤسسة الكتب الثقافية) میں ذکرکیاہے۔
مذکورہ روایت کی اسنادی حیثیت:
علامہ منذری(م656ھ)فرماتے ہیں:اس روایت کی سند میں’’النَّهَّاس بن قَهْم‘‘راوی ہیں ،ان کی حدیث قابل ِاحتجاج نہیں ہیں۔
امام طبرانی (م360ھ)اس مضمون کی ایک روایت حضرت أبوامامہ رضی اللہ عنہا سے نقل کی ہے جس کے بارے میں علامہ ہیثمی (م807ھ)فرماتے ہیں:اس روایت میں راوی ’’ علي بن يزيد الألهاني ‘‘ متروک ہیں اور ان کی توثیق بھی کی گئی ہے۔
امام عبدالرزاق بن ھمام(م211ھ)نے اس مضمون کی ایک مرسل روایت حضرت قتادہ رحمہ اللہ سے نقل کی ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس روایت کے شواہد موجود ہیں۔
تشريح:
واضح رہے کہ یہ فضیلت اس وقت ہے، جب فتنے میں مبتلاء ہونے کا اندیشہ نہ ہو یا نکاح اور بچوں کی پرورش کے اسباب میسر نہ ہوں اور اگر فتنے میں مبتلاء ہونے کا اندیشہ ہو یا نکاح اور بچوں کی پرورش کے اسباب میسر ہوں تو دوسرا نکاح کرنا خاص طور پر اس فتنے کے زمانے میں ہر لحاظ سے بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن أبي داؤد:(7/460،رقم الحديث:5149،ط:دارالرسالة العالمية)
حدثنا النهاس بن قهم، حدثني شداد: أبو عمارعن عوف بن مالك الأشجعى، قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "أنا وامرأة سفعاء الخدين كهاتين يوم القيامة" وأومأ يزيد بالوسطى والسبابة: "امرأة آمت من زوجها ذات منصب وجمال، حبست نفسها على يتاماها حتى بانوا أو ماتوا" .
أخرجه الإمام أحمدفي ’’ مسندأحمد‘‘(39/433)(24006)( 24008) والبخاري في ’’الأدب المفرد‘‘(62)( 141) و ابن أبي الدنيا في ’’النفقة على العيال‘‘(1/232)(86) و أبوبكر الخرائطي في ’’مکارم الأخلاق‘‘(210)(635) والطبراني في ’’معجمه الکبیر‘‘ (18/56)( 103) والبيهقي في ’’الآداب‘‘(12)(57)
والحديث أورده المنذري في ’’ مختصر سنن أبي داود‘‘(3//425)(5148)وقال : في إِسناده: النَّهَّاس بن قَهْم، أبو الخطاب البصري القاضي، ولا يحتج بحديثه
ولهذا الحديث شاهد من حديث أبي أمامة رضي الله عنه
أخرجه الطبراني في ’’معجمه الكبير‘‘(8/207)(7836) بلفظ’’ما أنا وامرأة سفعاء الخدين ، إذا أحنت على ولدها ، وأطاعت ربها ، وأحصنت فرجها في الجنة إلا كهاتين " وقرن بين إصبعيه . ‘‘ أورده الهيثمي في ’’مجمع الزوائد‘‘(4/314)(7677)وقال: رواه الطبراني، وفيه علي بن يزيد الألهاني، وهو ضعيف، وهو متروك، وقد وثق.
و شاهده من حديث قتادة
وأخرجه عبد الرزاق في ’’المصنف‘‘(9/144)( 21515) عن معمر، عن قتادة، قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أنا وسفعاء الخدين في الجنة كهاتين، وأشار بإصبعيه الوسطى والسبابة، قالوا: يا رسول الله، وما سفعاء الخدين؟ قال: امرأة توفي زوجها، فقعدت على عيالها. وهو مرسل رجاله ثقات.
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی