سوال:
میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرا 120 یارڈ کا پلاٹ تھا، مجھ کو یہ پلاٹ بنوانا تھا، ٹھیکیدار سے بنوانے کی بات ہوئی، ہم نے ٹھیکیدار سے کہا کہ گراؤنڈ فلور کی 2 دکانیں آپ لے لو، اور ہم کو گراؤنڈ + 2 بنادو، وہ راضی ہو گیا اور ہمارا گھر بنادیا ٹھیکیدار نے، میں نے آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ اِس طرح گھر بنوانے کا فائدہ شریعت کے حساب سے صحیح تھا؟ اور اگر صحیح نہیں تھا، تو اب میں کیا کروں؟
جواب: صورت مسؤلہ میں ذکر کردہ معاملہ شرعاً درست نہیں ہے۔
واضح رہے کہ اگر اس طرح کا معاملہ پہلے کیا جاچکا ہے، تو یہ اجارہ فاسدہ ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ عرف کے اعتبار سے مارکیٹ میں جتنی قیمت بنتی ہے، وہ ٹھیکدار کو دی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھدایة: (باب الإجارۃ الفاسدۃ، 431/3، ط: مکتبة البشری)
ومن دفع الی حائک غزلا لینسجہ بالنصف فلہ اجر مثلہ، وکذا إذا استأجر حمارًا یحمل علیہ طعامًا بقفیز منہ فالإجارۃ فاسدۃ لأنہ جعل الآجر بعض ما یخرج من عملہ فیصیر في معنی قفیز الطحان، وقد نہی النبي ﷺ عنہ وہو أن یستأجر ثورًا لیطحن لہ حنطۃ بقفیز من دقیقہ، وھذا أصل کبیر یعرف بہ فساد کبیر من الإجارات لا سیما في دیارنا
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی