سوال:
میں نے سنا ہے کہ پیشاب کا قطرہ ایک مخصوص مقدار میں لگے تو کپڑے ناپاک ہوجاتے ہیں اور اگر اس مقدار مخصوص سے کم ہو تو معاف ہے، اس کی وضاحت فرمادیں۔
جواب: اگر پیشاب کے قطرے ایک درہم ( 5.94 مربع سینٹی میٹر) کی مقدار سے زیادہ لگے ہیں تو نماز سے پہلے وہ جگہ پاک کرنا ضروری ہوگی، اتنی مقدار پیشاب کے قطرے لگے ہوں تو ایسے کپڑوں میں نماز ادا نہیں ہوگی، اور پاکی کا طریقہ یہ ہے کہ وہ جگہ تین بار اس طور پر دھوئی جائے کہ ہر بار دھونے کے بعد خوب اچھی طرح نچوڑا بھی جائے اور ہر بار نئے پانی سے دھویا جائے۔ واضح رہے کہ اس صورت میں مکمل کپڑے دھونا واجب نہیں ہے، بلکہ صرف اس ناپاکی والے حصہ کو دھونا ضروری ہے، اور اگر پیشاب کے قطرے ایک درہم کی مقدار یا اس سے کم لگے ہوں تو اس کے ساتھ نماز ہوجائے گی مگر مکروہ ہوگی، لہذا اگر علم ہوکہ پیشاب کے قطرے لگے ہوئے ہیں تو نماز سے پہلے انہیں دھویا جائے، خواہ وہ درہم کی مقدار سے کم ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الدار قطنی: (باب قدر النجاسۃ التي تبطل الصلاۃ، رقم الحدیث: 1679، 385/1)
عن أبی ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ عن النبي علیہ السلام قال: تعاد الصلاۃ من قدر الدراہم من الدم۔
الدر المختار: (339/1، ط: دار الفکر)
ویجب أي یفرض غسله إن جاوز المخرج نجس مائع، ویعتبر القدر المانع للصلاۃ فیما وراء موضع الاستنجاء؛ لأن ما علی المخرج ساقط شرعاً وإن کثر، ولہٰذا لا تکرہ الصلاۃ معہ والحاصل: أن ما جاوز المخرج إن زاد علی الدرہم في نفسہ یفترض غسلہ اتفاقاً۔
الدر المختار: (327/2، ط: دار الفکر)
(وغسل طرف ثوب) أو بدن (أصابت نجاسة محلا منه ونسي) المحل (مطهر له وإن) وقع الغسل (بغير تحر) وهو المختار۔۔۔(وكذا يطهر محل نجاسة) أما عينها فلا تقبل الطهارة (مرئية) بعد جفاف كدم (بقلعها) أي: بزوال عينها وأثرها ولو بمرة أو بما فوق ثلاث في الأصح۔۔۔۔(و) يطهر محل (غيرها) أي: غير مرئية (بغلبة ظن غاسل) لو مكلفا وإلا فمستعمل (طهارة محلها) بلا عدد به يفتى۔۔۔(و) قدر (بتثليث جفاف) أي: انقطاع تقاطر (في غيره) أي: غير منعصر مما يتشرب النجاسة وإلا فبقلعها
الفتاوی التاتارخانیة: (218/1، ط: زکریا)
ثم الاستنجاء بالأحجار إنما یجوز إذا اقتصرت النجاسۃ علی موضع الحدث أما إذا تعدت عن موضعہا بأن جاوزت الشرج من النجاسۃ أکثر من قدر الدرہم أنہ یفترض غسلہا بالماء ولا یکفیہ الإزالۃ بالأحجار۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی