سوال:
مفتی صاحب ایک مسئلہ پر رہنمائی چاہیے۔
کسی غریب کو مدد کی ضرورت ہے، اس نے ہاسپٹل کا بل بھرنا ہے، ہم اس کی اس طرح مدد کرنا چاہتے ہیں کہ اس کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو، ابھی کہیں سے انتظام بھی نہیں، کیا ہم اپنے خرچے کے پیسوں میں سے اس کا بل ادا کر سکتے ہیں( اس نیت سے کہ کہیں سے بعد میں زکوة ،خیرات، نفلی صدقہ یا عطیہ آجائے تو ہم وہ پیسے اپنے خرچے کے پیسوں میں ایڈجسٹ کرلیں۔جتنے ہم نے دیے تھے) کیا اس طرح کرنے سے اس کی زکوةیا صدقہ ادا ہو جائیگا یا نہیں؟
جزاک اللہ خیراً
جواب: اگر کوئی شخص دوسرے کی طرف سے اس کی اجازت اور حکم کے بغیر زکوٰة ادا کرے تو زكوة ادانہیں ہوگی اور اگر اجازت سے زکوٰة دی تو بعد میں اس سے اتنی رقم لے سکتا ہے۔
صورت مذکورہ میں اگر زکوٰة دینے والا پہلے سے اجازت دے دیتا ہے،پھر آپ اپنے خرچے سے اداکرنے کے بعد اس سے لےسکتے ہیں، باقی نفلی صدقہ اورعطیہ میں کوئی منع نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
البحر الرائق: (227/2، ط: دار الکتاب الاسلامی)
ولو أدى زكاة غيره بغير أمره فبلغه فأجاز لم يجز؛ لأنها وجدت نفاذا على المتصدق؛ لأنها ملكه، ولم يصر نائبا عن غيره فنفذت عليه ولو تصدق عنه بأمره جاز ويرجع بما دفع عند أبي يوسف، وإن لم يشترط الرجوع كالأمر بقضاء الدين وعند محمد لا رجوع له إلا بالشرط،
رد المحتار: (269/2، ط: دار الفکر)
قال في التتارخانية: إلا إذا وجد الإذن أو أجاز المالكان اه أي أجاز قبل الدفع إلى الفقير، لما في البحر: لو أدى زكاة غيره بغير أمره فبلغه فأجاز لم يجز لأنها وجدت نفاذا على المتصدق لأنها ملكه ولم يصر تائبا عن غيره فنفذت عليه اه لكن قد يقال: تجزي عن الآمر مطلقا لبقاء الإذن بالدفع. قال في البحر: ولو تصدق عنه بأمره جاز ويرجع بما دفع عند أبي يوسف. وعند محمد لا يرجع إلا بشرط الرجوع اه
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی