سوال:
جبرئیل علیہ السلام نے آپ ﷺ سے کہا: جو آپ پر درود بھیجے گا، میں اس پر درود بھیجونگا اور جو آپ پر سلام بھیجے گا، میں اس پر سلام بھیجونگا، کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
جواب: سوال میں ذکرکردہ روایت’’صحیح‘‘ہے،لہذا اس کوبیان کیاجاسکتا ہے۔اس روایت کا ترجمہ،تخریج اوراسنادی حیثیت مندرجہ ذیل ہے۔
ترجمہ:حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مسجد آیا تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ مسجد سے باہر نکل رہے ہیں، میں آپ کے پیچھے چل پڑا اور آپ کو میرے آنے کی خبر نہ ہوئی۔ آپ ﷺ کھجوروں کے ایک باغ میں پہنچے اور قبلے کی طرف رخ فرما کر سجدے میں چلے گئے اور بہت دیر تک سجدے میں پڑے رہے، یہاں تک مجھے گمان گزرا کہ کہیں ﷲ عزوجل نے آپ ﷺ کی روح کو قبض تو نہیں کرلیا، میں آپﷺ کے پاس آیا اور جھک کر آپ ﷺ کا چہرہ دیکھنے لگا۔آپ ﷺ نے سر مبارک سجدے سے اٹھایا اور مجھ سے فرمایا: اے عبدالرحمن ! تم کیوں پریشان ہو؟ میں نے عرض کیا کہ آپ ﷺ کے دیر تک سجدے میں رہنے سے مجھے یہ شبہ ہوا کہ اللہ تعالی نے آپ کی روح کو قبض فرمالیا ہے، اس لیےمیں یہاں آکر آپ کو دیکھنے لگا۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم نے مجھے دیکھا میں کھجوروں کے باغ میں داخل ہوا تو میں وہاں جبرئیل سے ملا، وہ کہنے لگے کہ میں آپ ﷺ کو خوش خبری دیتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو آپ ﷺ پر سلام بھیجے گا، میں اس پر سلام بھیجوں گا اور جو آپ ﷺ پر درود بھیجے گا، میں اس پر درود بھیجوں گا۔‘‘( السنن الكبرى للبيهقي،حدیث نمبر 3936)(۱)
تخریج الحدیث:
۱۔اس روایت کو امام بیہقی(م458ھ)نے’’السنن الکبری‘‘(2/518،رقم الحديث:3936،ط:دارالكتب العلمية) میں ذکرکیا ہے۔
۲۔امام احمدبن حنبل(م241ھ)نے’’مسندأحمد‘‘(3/200،رقم الحديث:1662،ط:مؤسسة الرسالة) میں ذکرکیا ہے۔
۳۔امام عبدبن حمید(م249ھ)نے’’المنتخب من مسندعبد بن حمید‘‘ (82،رقم الحدیث:157) میں ذکرکیا ہے۔
۴۔ امام بزار(م292ھ)نے’’مسندبزار‘‘(3 / 219،رقم الحدیث:1006،ط: مكتبة العلوم والحكم) میں ذکرکیا ہے۔
۵۔ حافظ أبویعلی الموصلی (م307ھ)نے ’’مسندأبي يعلى ‘‘ (2 / 158،رقم الحدیث: 847) اور (2 / 173،رقم الحدیث:869،ط:دارالمأمون للتراث) میں ذکرکیا ہے۔
۶۔ امام حاکم (م405ھ)نے ’’مستدرک‘‘(1/344،رقم الحديث:810،ط:دارالكتب العلمية)میں ذکرکیا ہے۔
مذکورہ روایت کی اسنادی حیثیت:
امام حاکم (م405ھ)نےاس روایت کو ’’صحیح علی شرط الشیخین‘‘قراردیا ہے اورامام ذہبی(م748ھ)نے ان کی تائید کی ہے۔(۲)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
(۱)السنن الكبرى للبيهقي: (2/518،رقم الحديث:3936،ط:دارالكتب العلمية)
عن عبد الرحمن بن عوف قال: دخلت المسجد فرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم خارجا من المسجد فاتبعته أمشي وراءه ولا يشعر بي حتى دخل نخلا، فاستقبل القبلة فسجد فأطال السجود وأنا وراءه حتى ظننت أن الله تعالى توفاه فأقبلت أمشي حتى جئته فطأطأت رأسي أنظر في وجهه فرفع رأسه، فقال: " ما لك يا عبد الرحمن؟ " فقلت: لما أطلت السجود يا رسول الله، خشيت أن يكون الله قد توفى نفسك، فجئت أنظر فقال: " إني لما رأيتني دخلت النخل لقيت جبرائيل عليه السلام، فقال: أبشرك أن الله تعالى يقول: من سلم عليك سلمت عليه ومن صلى عليك صليت عليه "
والحديث أخرجه الإمام أحمدفي ’’مسنده ‘‘(3/200)(1662) وعبدبن حميدفي ’’المنتخب من مسندعبد بن حمید‘‘ (82)(157) والبزار في ’’مسنده‘‘(3 / 219)(1006) وأبويعلى في ’’مسنده‘‘2 / 158)( 847)(2 / 173)( 869) والحاكم في ’’المستدرك ‘‘(1/344)(810)
(۲)والحديث أخرجه الحاكم في ’’المستدرك ‘‘(1/344)(810)وقال : هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه، ولا أعلم في سجدة الشكر أصح من هذا الحديث، وقد خرجت حديث بكار بن عبد العزيز بن أبي بكرة بعد هذا " وأقره الذهبي وقال:على شرطهما
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی