سوال:
مندرجہ ذیل روایت کی تحقیق کی مطلوب ہے:"حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے وقت جب ان کو قبر میں اتارا جا رہا تھا تو قبر نے کہا کہ یہ وہ جگہ ہے، جہاں نسب نہیں چلتا، صرف عمل چلتا ہے"۔
جواب: یہ واقعہ علامہ عثمان بن حسن بن احمد الشاکر رحمة اللہ نے "درة الناصحین " میں بغیر سند کے نقل کیا ہے۔
واقعہ درج ذیل ہے:
حکی ان فاطمة الزھراء بنت النبی ﷺ لما ماتت حمل جنازتھا اربعة نفر: زوجھا علی کرم اللہ وجھہ و ابناھا الحسن و الحسین و ابوذر الغفاری رضی اللہ عنھم اجمعین فلما وضعوا علی شفیر القبر قام ابوذر، فقال یا قبر ا تدری من التی جئنا بھا الیک ھی فاطمة الزھراء بنت رسول اللہ ﷺ و زوجة علی المرتضٰی و ام الحسن والحسین، فسمعوا نداء من القبر، یقول ماانا موضع حسب ولا نسب و انما انا موضع العمل الصالح فلا ینجو منی الامن کثر خیرہ وسلم قلبہ وخلص عملہ۔
(درة الناصحین ج2، ص 80)
ترجمہ:
حکايت نقل کی گئی ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جب انتقال ہوا تو ان کا جنازہ چار آدمی حضرت علی ، حسن اور حسین اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنھم اجمعین نے اٹھایا، پس جب ان کا جنازہ قبر کے کنارے رکھا گیا تو حضرت ابو ذر غفاری نے قبر سے خطاب فرمایا اے قبر! کیا تجھے خبر بھی ہے کہ ہم کس کے جنازے کو لائے ہیں؟ یہ فاطمة الزھراء رسول اللہ ﷺ کی بیٹی ہیں، یہ علی المرتضٰی کی زوجہ ہیں، یہ حضرت حسن اور حضرت حسین کی والدہ ہیں، تو ان سب نے قبر میں سے یہ آواز سنی کہ قبر کہہ رہی تھی کہ میں حسب و نسب بیان کرنے کی جگہ نہیں ہوں اور یقیناً میں تو عمل صالح کی جگہ ہوں اور مجھ سے وہی نجات پائے گا، جس کی اچھائیاں زیادہ ہوں اور دل مسلمان ہو اور عمل خالص ہو۔
" درة الناصحین " کتاب کی حیثیت
درة الناصحین وعظ اور خطابت کی کتاب ہے، اس کے بارے میں شیخ ابن عثیمین فرماتے ہیں:
رأيي في هذا الكتاب وفي غيره من كتب الوعظ أن يقرأها الإنسان بتحفظ شديد لأن كثيرًا من المؤلفين في الوعظ يأتون بأحاديث لا سند لها ولا أصل لها عن الرسول صل الله عليه وسلم بل هي أحاديث موضوعة أحيانًا، وضعيفة جدًا أحيانًا يأتون ها من أجل ترقيق القلوب وتخويفها وهذا خطأ عظيم لأن فيما خص من سنة الرسول صل الله عليه وسلم من الوعظ كفاية والقرآن العظيم أعظم ما توعظ به القلوب۔
(فتاوی نور علی الدرب:ج 2، ص 69)
ترجمہ:
میری رائے اس کتاب اور اس جیسی وعظ و خطابت کی دوسری کتب کے بارے میں یہ ہے کہ ان کتب کو پڑھتے وقت دھیان سے کام لینا چاہیے، کیونکہ وعظ کی کتابوں کے بہت سے مولف، وعظ کی کتابوں میں ایسی احادیث نقل کرتے ہیں، جن کی سرے سے سند ہی نہیں ہوتی اور نہ ہی رسول اللہﷺ سے ثبوت کی کوئی اصل ہوتی ہے، بلکہ اکثر من گھڑت اور انتہائی ضعیف احادیث ہوتی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ واعظین لوگوں کے دلوں کو نرم کرنے اور ڈرانے کے لئے اس طرح کرتے ہیں، حالانکہ یہ بہت بڑی غلطی ہے، کیونکہ رسول اللہﷺ کی سنت وعظ کے لئے کافی ہے اور قرآن کریم دلوں کی نصیحت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
واقعہ کا حکم:
یہ واقعہ تلاش بسیار کے باوجود کسی معتبر کتاب میں سند کے ساتھ نہیں ملا، لہذا اس کے بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی