سوال:
حضرت! غزوہ اس جنگ کو کہتے ہیں کہ جس میں آپ ﷺ نے خود شرکت فرمائی ہو تو غزوہ ہند کا کیا مطلب ہے، حالانکہ اس میں تو آپ ﷺ نے شرکت نہیں فرمائی ہے؟
جواب: "لفظِ غزوہ" کا استعمال ایسی جنگ کے لیےجس میں حضور ﷺ نے شرکت فرمائی ہو، مؤرخین اور سیرت نگاروں کی اصطلاح ہے ، ورنہ احادیث میں غزوہ کا لفظ ایسی جنگ کے ساتھ خاص نہیں کیا گیا ہے، جس میں حضور ﷺنے شرکت فرمائی ہو، بلکہ احادیث میں مطلقاً کسی بھی جنگ پر غزوہ کا اطلاق کیا گیا ہے، چاہے اس میں حضورﷺ نے شرکت فرمائی ہو یا نہ فرمائی ہو، حتی کہ بعض جنگوں میں آپ ﷺ نے شرکت نہیں فرمائی ہے، لیکن پھر بھی اس کو سیرت نگاروں نے غزوہ کا ہی نام دیا ہے، چنانچہ "غزوہِ مؤتہ" میں آپ ﷺ نے شرکت نہیں فرمائی ہے، پھر بھی اسے غزوہ ہی کہا جاتا ہے، لہذا اس اعتبار (یعنی مطلق جنگ کے اعتبار) سے "غزوہِ ہند" کو غزوہ کہا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فتح الباری: (279/7، ط: دار المعرفۃ)
والمغازي جمع مغزى يقال غزا يغزو غزوا ومغزى والأصل غزوا والواحدة غزوة وغزاة والميم زائدة وعن ثعلب الغزوة المرة والغزاة عمل سنة كاملة وأصل الغزو القصد ومغزى الكلام مقصده والمراد بالمغازي هنا ما وقع من قصد النبي صلى الله عليه وسلم الكفار بنفسه أو بجيش من قبله وقصدهم أعم من أن يكون إلى بلادهم أو إلى الأماكن التي حلوها حتى دخل مثل أحد والخندق
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی