سوال:
السلام علیکم! جناب مفتی صاحب! میرے ایک جاننے والے مہتمم صاحب ہیں، لوگ انہیں مدرسہ کے لئے رقم دیتے ہیں، اور وہ ایک مدرسہ دینی ادارہ احسن انداز میں چلاتے ہیں، نیک صالح دیندار ہیں، ان کی تنخواہ جتنی مقرر ہے، اس سے ان کے گھر کا خرچ دس دن بھی نہیں چلتا، اپنی تنخواہ خود مقرر کی ہے، ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ چونکہ دس پندرہ ہزار پر ان کے گھر کا خرچ نہیں چلتا تو وہ مدرسہ کے فنڈ سے اپنے خرچ کے مطابق رقم اپنے گھر پر استعمال کرتے ہیں اور بقول ان کے کہ میں صرف اپنی ایسی ضروریات میں ایسا کرتا ہوں جو میری مجبوری ہوتی ہے، اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ ایک دن میں نے عرض کیا کہ جناب آپ تنخواہ زیادہ مقرر کرلیں تو پھر انہوں نے عرض کیا کہ میرے گھر کے خرچ کا پتہ نہیں چلتا، کبھی کم ہو جاتا ہے تو میں کم خرچ لیتا ہوں اور کبھی زیادہ ہوجاتا ہے تو زیادہ لیتا ہوں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا اس مہتمم صاحب کا یہ طریق کار درست ہے اور ہم سے چندہ دے سکتے ہیں؟
جواب: واضح رہے کہ مدرسہ کے لیے جو رقم جمع ہوتی ہے، وہ امانت ہوتی ہے اور مہتمم چندہ دینے والوں کی طرف سے اس رقم کو مدرسہ کے اخراجات پر خرچ کرنے کا وکیل اور ذمہ دار ہوتا ہے، لہذا مہتمم کو چاہیے کہ اس رقم کو امانت اور دیانت داری کے ساتھ مدرسے کے مصارف میں خرچ کرے، مدرسہ کے مصارف کے علاوہ کہیں اور خرچ کرنا یا ضرورت سے زائد خرچ کرنا خیانت ہے، لہذا پوچھی گئی صورت میں مہتمم کو چاہیے کہ مدرسہ کے لیے اپنی خدمات اور ذمہ داریوں کے بقدر تنخواہ مقرر کرے اور اسی کے بقدر وصول کرے، اس سے زیادہ وصول کرنا یا طے کیے بغیر اپنے اخراجات کے بقدر جو مرضی وصول کرے، درست نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مسندأحمد: (رقم الحديث: 12383، 376/19، ط: مؤسسة الرسالة)
عن أنس قال: قلما خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا قال: «لا إيمان لمن لا أمانة له، ولا دين لمن لا عهد له.
الدر المختار: (367/4، ط: دار الفكر)
(ويبدأ من غلته بعمارته)ثم ما هو أقرب لعمارته كإمام مسجد ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايتهم.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی