سوال:
میرے شوہر نے ایک مرتبہ کہا کہ میرے پاس ایسا علم ہے جو اللہ کے پاس، نبی کے پاس اور میرے پاس ہے۔ اس کے بعد ایک مرتبہ کہا کہ میرے پاس ایسا علم ہے جو صرف اللہ کے پاس، میرے پاس اور شیطان کے پاس ہے۔ ایک موقع پر میرے اور میرے شوہر کے درمیان کسی شرعی مسٸلہ پر بات ہو رہی تھی تو میرے شوہر نے کہا کہ مین ان جھوٹے زندیق علماء کی بات نہیں مانتا۔ اس کے علاوہ میرے شوہر علماء کے بارے میں غلط باتیں بھی کرتے ہیں کہ علماء سوٸے ہوٸے ہیں اور اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے۔ کیا میرے شوہر کے یہ الفاظ کہنا درست ہیں؟ کیا ایسے الفاظ کہنے والا شخص اسلام پر باقی رہے گا؟ اور ہم دونوں کے نکاح کا کیا حکم ہے؟
تنقیح:
محترمہ! آپ اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ (1) سوال میں ذکر کردہ الفاظ "میرے پاس ایسا علم ہے جو اللہ کے پاس، نبی کے پاس اور میرے پاس ہے / میرے پاس ایسا علم ہے جو اللہ کے پاس، میرے پاس اور شیطان کے پاس ہے " سے آپ کے شوہر کی کیا مراد ہے؟ وہ کس علم کا دعوی کرتے ہیں؟
2) سوال میں مذکورہ جملے "میں ان جھوٹے زندیق علماء کی بات نہیں مانتا/ علمائے سوء ہیں" سے آپ کے شوہر عالم اسلام کے تمام علماء مراد لیتے ہیں یا پھر کچھ ایسے علماء جو ان کی نظر میں کسی خاص وجہ سے علماء سوء ہیں؟ نیز دونوں صورتوں میں علماء سوء اور زندیق کہنے کی وجہ بھی بتائیں۔ اس وضاحت کے بعد ہی آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکتا ہے۔
جواب تنقیح: انہوں نے حکمت کی کچھ کتابیں خود پڑھی ہوئی ہیں، اس کی بنیاد پر انہوں نے یہ بات کہی ہے۔
کسی خاص عالم کا نام نہیں لیتے اور نہ ہی کوئی تخصیص کرتے ہیں، بلکہ مطلق علماء کو انہوں نے اس طرح کہا ہے، خود حافظ ہیں مگر علماء کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں کہ علماء سود کے خلاف فتوی نہیں دیتے۔ بس اسی طرح لگے رہتے ہیں کہ علماء ایسے علماء ویسے۔
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ یہ الفاظ "میرے پاس ایسا علم ہے جو اللہ کے پاس، نبی کے پاس اور میرے پاس ہے / میرے پاس ایسا علم ہے جو اللہ کے پاس، میرے پاس اور شیطان کے پاس ہے " کہنے والے شخص کی مراد اور مقصد اس جملے سے "علم حکمت" ہے، لہذا مذکورہ جملہ کہنے سے کفر تو لازم نہیں آیا، تاہم چونکہ یہ الفاظ کہنے والا اپنے لیے اعلم (یعنی تمام انسانوں سے زیادہ حکمت جاننے والا) ہونے کا دعوی کر رہا ہے، جس کا غیر محتاط اور خلاف واقع ہونا واضح ہے، اس لیے یہ الفاظ کہنے سے احتراز لازم ہے۔
نیز علماء کو گالی دینے سے کافر ہوجانے اور نکاح ٹوٹنے میں تفصیل ہے: وہ یہ کہ اگر کسی عالم دین کو بغیر کسی ظاہری سبب کے محض اس لیے گالی دی جائے کہ اس کا تعلق دین اور علمِ دین کے ساتھ ہے تو اس عمل سے گالی دینے والا شخص دائرہ اسلام سے نکل جاتا ہے اور اس کا نکاح بھی ٹوٹ جاتا ہے، ایسی صورت میں اس پر لازم ہے کہ توبہ کرکے تجدیدِ ایمان کے بعد دوبارہ نکاح کرے۔
اور اگر خدانخواستہ کسی عالمِ دین کے کچھ افکار یا اعمال واضح طور پر دینِ اسلام کی واضح تعلیمات کے خلاف ہوں اور ان غلط افکار یا اعمال کی وجہ سے یا اپنی کسی ذاتی لڑائی جھگڑے کی وجہ سے اگر کوئی اسے برا بھلا کہتا ہے تو ایسا شخص کافر تو نہیں ہوگا اور اس کا نکاح بھی نہیں ٹوٹے گا، تاہم کسی کو بھی گالی دینا گناہ کا کام اور ناجائز فعل ہے، جس سے ہر حال میں احتراز کرنا لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح البخاري: (رقم الحدیث: 7076، ط: دار طوق النجاة)
حدثنا عمر بن حفص، حدثني أبي، حدثنا الأعمش، حدثنا شقيق قال: قال عبد الله : قال النبي صلى الله عليه وسلم: سباب المسلم فسوق، وقتاله كفر.
مجمع الأنهر: (695/1، ط: دار إحياء التراث العربي)
(الرابع في الاستخفاف بالعلم) وفي البزازية فالاستخفاف بالعلماء لكونهم علماء استخفاف بالعلم والعلم صفة الله تعالى منحه فضلا على خيار عباده ليدلوا خلقه على شريعته نيابة عن رسله فاستخفافه بهذا يعلم أنه إلى من يعود فإن افتخر سلطان عادل بأنه ظل الله تعالى على خلقه يقول العلماء بلطف الله اتصفنا بصفته بنفس العلم فكيف إذا اقترن به العمل الملك عليك لولا عدلك فأين المتصف بصفته من الذين إذا عدلوا لم يعدلوا عن ظله والاستخفاف بالأشراف والعلماء كفر.
ومن قال للعالم عويلم أو لعلوي عليوي قاصدا به الاستخفاف كفر. ومن أهان الشريعة أو المسائل التي لا بد منها كفر ومن بغض عالما من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر ولو شتم فم عالم فقيه أو علوي يكفر وتطلق امرأته ثلاثا إجماعا كما في مجموعة المؤيدي نقلا عن الحاوي لكن في عامة المعتبرات أن هذه الفرقة فرقة بغير طلاق عند الشيخين فكيف الثلاث بالإجماع، تدبر.
حكي أن فقيها وضع كتابه في دكان وذهب ثم مر على ذلك الدكان فقال صاحب الدكان هاهنا نسيت المنشار فقال الفقيه: عندك لي كتاب لا منشار، فقال صاحب الدكان: النجار يقطع الخشبة بالمنشار وأنتم تقطعون به حلق الناس أو قال حق الناس أمر ابن الفضل بقتل ذلك الرجل لأنه كفر باستخفاف كتاب الفقيه وفيه إشعار بأن الكتاب إذا كان في غير علم الشريعة كالمنطق والفلسفة لا يكون كفرا لأنه يجوز إهانته في الشريعة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی