سوال:
مفتی صاحب ! میرے خاندان میں کچھ لوگ عرب امارات میں مقیم ہیں اور رمضان میں ٨ رکعت تراویح پڑھتے ہیں، کیا ٨ رکعت پڑھنے سے سنت مؤکدہ ادا ہو جائے گی؟ اور کیا ١ رکعت وتر کو ترک کر کے گھر میں وتر پڑھ لیں؟ وہاں پر اس نماز کی کیا ترتیب بنائیں؟
جواب: (1) بیس رکعت تراویح سنتِ مؤکدہ ہے، رسول اللہ ﷺ سے تراویح بیس رکعت پڑھنا ہی ثابت ہے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے سے لے کر آج تک تمام صحابہ کرامؓ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین اور تمام امت نے اسے قبول کیا ہے اور اب تک اسی پر عمل کرتے ہوئے، بیس رکعت تراویح ادا کرتے آرہے ہیں، اور اس پر تمام صحابہ کرام اور ائمہ مجتہدین کا اجماع ہے، لہذا بیس رکعت تراویح ہی سنتِ مؤکدہ ہے۔
مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے:
' أن رسول الله صلی الله علیه وسلم کان یصلی في رمضان عشرین رکعة'۔
[مصنف ابن ابی شیبہ،باب من کان یری القیام فی رمضان]
ترجمہ: حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله عليه وسلم رمضان میں بیس رکعت پڑھتے تھے۔
"مرقاة المفاتیح" میں ہے:
" لكن أجمع الصحابة على أن التراويح عشرون ركعةً".
(3/382، ط: رشیدیہ)
(2) حنفی مسلک میں وتر کی نماز تین رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے، اس لیے حنفی کے لیے دو سلام کے ساتھ یا ایک رکعت وتر پڑھنا درست نہیں ہے، لہذا عرب ممالک میں رہنے والے حنفی حضرات کو چاہیے کہ وہ وہاں تراویح ان کے امام کی اقتدا ہی میں ادا کریں، لیکن وتر کی نماز میں ان کے ساتھ شامل نہ ہوں، بلکہ اپنی علیحدہ طور پر اجتماعی یا انفرادی پڑھ لیں ، اور اگر ان کے ساتھ ادا کرلیں، تو بعد میں اس کا اعادہ کرلیں۔
'' فظهر بهذا أن المذهب الصحيح صحة الاقتداء بالشافعي في الوتر إن لم يسلم على رأس الركعتين وعدمها إن سلم۔ والله الموفق للصواب''۔ (البحر الرائق، 2/40، باب الوتر والنوافل، ط: سعید)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی