سوال:
مفتی صاحب ! سوال ہے کہ ایک شخص کے پاس کئی پلاٹ ہیں اور وہ اس نے اس نیت سے رکھے ہیں کہ میرے بعد بچوں کے ہو جائیں گے تو کیا ان پر زکوة دینا ہو گی؟ اور اگر وہ شخص زندگی میں بتا جائے کہ سب کا ایک ایک ہے، لیکن نام پر اس کے اپنے ہی ہوں، ایسی صورت میں زکوة کا کیا حکم ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ صورت مسئولہ میں اولاد اگر بالغ ہو ( ساری اولاد بالغ ہو یا ان میں سے کچھ اولاد ) اور ان کو جائیداد ( پلاٹ وغیرہ) ہدیہ کی جائے تو جب تک وہ جائیداد حسی طور پر ان کے قبضہ میں نہیں آجاتی، وہ جائیداد بدستور آپ کی ملکیت میں ہے، چونکہ یہ پلاٹ آپ نے تجارت کی نیت سے نہیں خریدے ہیں، اس لیے ان پلاٹوں پر زکوة واجب نہیں ہوگی۔اور اگر اولاد نابالغ ہو تو ان کو ہدیہ کرتے ہی وہ ان کی ملکیت میں چلی گئی، خواہ جائیداد آپ کے ہی قبضہ میں ہو، چونکہ نابالغ پر اس کے مال میں زکوٰة فرض نہیں ہے، لہذا اس جائیداد پر زکوٰة نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (489/8، ط: زکریا)
"وشرائط صحتہا في الموھوب أن یکون مقبوضا غیر مشاع ممیزا غیر مشغول کما
سیتضح".
و فیہ ایضا: (449/8، ط: سعید)
"أَنْ یَہَبَ مَنْ لَہُ الْوَلاَیَۃُ عَلَی الطِّفْلِ لِلطِّفْلِ یَتِمُّ بِالْعَقْدِ وَلا یَفْتَقِرُ إِلَی الْقَبْضِ؛ لِأَنَّہُ ہُوَ الَّذِيْ یَقْبِضُ لَہُ، فَکَانَ قَبْضُہ کَقَبْضِہٖ، وَصَارَ کَمَنْ وَہَبَ لآخَرَ شَیْئًا وَکَانَ الْمَوْہُوْبُ فِيْ یَدِ الْمَوْہُوْبِ لَہُ، فَإِنَّہُ لایُحْتَاجُ إِلٰی قَبْضٍ جَدِیْدٍ ".
مجمع الانھر: (کتاب الزکوٰۃ، 191/1)
"(وشروط وجوبھا) ای افتراضھا (العقل والبلوغ والا سلام والحریۃ۔۔۔۔۔ الخ )".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی