سوال:
مسلمان کی عمر بڑھنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ بدلتا رہتا ہے، اس حدیث کی وضاحت فرما دیں۔
جواب: واضح رہے کہ مختلف عمر کے مختلف فضائل کے حوالہ سے ایک روایت "مسند ابی یعلی " میں ملتی ہے، جس کے تمام طرق ضعفاء و مجاہیل راویوں سے خالی نہیں ہیں، لیکن "مختلف عمر کے مختلف فضائل" مذکورہ مضمون پر مشتمل متعدد روایات "مسند احمد" میں اختصار کے ساتھ مذکور ہیں، ان کی سند پر بھی محدّثین عظام نے کلام کیا ہے، تاہم فضائل کے باب میں متعدد طرق سے منقول ہونے کی بناء پر تقویت ملنے کی وجہ سے روایات میں ذکر کردہ فضائل قابلِ قبول ہیں، جیسا کہ علامہ مناوی رحمہ اللہ نے روایت کے مختلف اجزاء کو متعدد طرق سمیت "مجمع الزوائد " میں نقل کیا ہے۔
تاہم "بچے کے اعمال والدین کے نامہ اعمال میں لکھے جانے "کے بارے میں اضافہ چونکہ صرف "مسندابی یعلی " والی روایت ہی میں ہے، اور اس کی سند کے رجال شدید ضعیف ہیں، اس بناء پر روایت میں جو "مختلف عمر کے مختلف فضائل" مذکور ہیں، وہ تو قابل قبول ہیں، لیکن مسند ابی یعلی والی روایت کا " اضافی حصہ" (بچے کے اعمال والدین کےنامہ اعمال میں لکھے جائیں گے) راریوں کے شدید ضعیف ہونے کی وجہ سے آگے نقل کرنا درست نہیں۔
ذیل میں مسند احمد اور مسند ابی یعلی دونوں روایات کا ترجمہ ذکر کیا جاتا ہے:
"مسند احمد" والی روایت کا ترجمہ:
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: "جب مسلمان بندہ چالیس سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ تین طرح کی بلائیں دور کر دیتا ہے: جنون، کوڑھ اور برص، جب پچاس سال کا ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے حساب میں تخفیف کر دیتا ہے، اور جب ساٹھ سال کا ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی طرف جھکنا نصیب فرما دیتا ہے اور جب ستر سال کی عمر کا ہو جاتا ہے تو آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب اسّی سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیاں ثابت رکھتا ہے، اور اس کی برائیاں مٹا دیتا ہے، جب نوّے سال کا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرماتا ہے اور اس کے گھرانے کے آدمیوں کے بارے میں اسے شفاعت کرنے والا بنا دیتا ہے، نیز آسمانوں میں لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ اللہ کی زمین میں اس کا قیدی ہے اور اس کے گھر والوں کے حق میں اس کی سفارش قبول فرماتا ہے۔ (مسند الإمام أحمد بن حنبل، حدیث أبي رمثة -رضي الله عنه-،13/21، الناشر: مؤسسة الرسالة)
"مسند ابی یعلی موصلی" والی روایت کا ترجمہ:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے روایت کو نبیﷺ کی جانب نسبت کرکے ذکر کیا ہے کہ نومولود بچہ جب تک بلوغت کی عمر کو نہیں پہنچ جاتا اس کی نیکیاں اس کے والد یا والدین کے نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہیں، البتہ اس کی برائیاں والد یا والدین کے نامہ اعمال میں نہیں شامل کی جائیں گی۔ جب وہ بلوغت کی عمر کو پہنچ جاتا ہے تو تقدیر لکھ دی جاتی ہے، اور دونوں فرشتے اس کی حفاظت پر مامور کردیئے جاتے ہیں۔ جب مسلمان بندہ چالیس سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ تین طرح کی بلائیں دور کر دیتا ہے: جنون، کوڑھ اور برص۔۔۔۔۔الخ (آگے" مسند احمد" والی روایت ہی کا مضمون وارد ہے) (مسند أبي يعلى الموصلي، للإمام الحافظ أحمد بن على بن المثنى التميمي (210 - 307 هـ)، (مسند أنس بن مالک، 400/5، تخريج وتعليق: سعيد بن محمد السناري، الناشر: دار الحديث – القاهرة)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مسند أبي يعلى الموصلي للإمام الحافظ أحمد بن على بن المثنى التميمي: (مسند أنس بن مالک، 400/5، ط: دار الحديث – القاهرة)
عن أنس بن مالك -رضى الله عنه-، رفع الحديث، قال: "المولود حتى يبلغ الحنث، ما عمل من حسنة كتب لوالده أو لوالديه، وما عمل من سيئة لم تكتب عليه ولا على والديه، فإذا بلغ الحنث جرى عليه القلم، أمر الملكان اللذان معه أن يحفظا وأن يشددا، فإذا بلغ أربعين سنة في الإسلام أمنه الله من البلايا الثلاثة: الجنون والجذام والبرص، فإذا بلغ الخمسين خفّف الله من حسابه، فإذا بلغ الستين رزقه الله الإنابة إليه بما يحب، فإذا بلغ السبعين أحبه أهل السماء، فإذا بلغ الثمانين كتب الله له حسناته وتجاوز عن سيئاته، فإذا بلغ التسعين غفر الله له ما تقدم من ذنبه وما تأخر، وشفعه في أهل بيته، وكان أسير الله في أرضه، فإذا بلغ أرذل العمر لكى لا يعلم بعد علم شيئا، كتب الله له مثل ما كان يعمل في صحته من الخير، فإذا عمل سيئة لم تكتب عليه".
مسند الإمام أحمد بن حنبل: (حدیث أبي رمثة -رضي الله عنه-، 13/21، ط: مؤسسة الرسالة)
عن أنس بن مالك-رضى الله عنه-، أن رسول الله ﷺ قال: " ما من معمر يعمر في الإسلام أربعين سنة، إلا صرف الله عنه ثلاثة أنواع من البلاء: الجنون، والجذام، والبرص، فإذا بلغ خمسين سنة، لين الله عليه الحساب، فإذا بلغ ستين، رزقه الله الإنابة إليه بما يحب، فإذا بلغ سبعين سنة أحبه الله، وأحبه أهل السماء، فإذا بلغ الثمانين، قبل الله حسناته، وتجاوز عن سيئاته، فإذا بلغ تسعين، غفر الله له ما تقدم من ذنبه وما تأخر، وسمي أسير الله في أرضه، وشفع لأهل بيته"۔
تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة لنور الدين علي بن محمد ابن عراق الكناني: (کتاب المبتدأ، الفصل الثاني، 206/1، ط: دار الكتب العلمية – بيروت)
حديث: " ما من معمر يعمر في الإسلام أربعين سنة إلا صرف الله عز وجل عنه أنواعا من البلاء: الجنون والجذام والبرص، فإذا بلغ خمسين ليّن الله عليه الحساب، فإذا بلغ ستين رزقه الله الإنابة إليه بما يحب، فإذا بلغ سبعين أحبه الله وأحبه أهل السماء، فإذا بلغ ثمانين قبل الله حسناته وتجاوز عن سيئاته، فإذا بلغ تسعين غفر الله له ما تقدم من ذنبه وما تأخر، وسمّي أسير الله في أرضه وشفع لأهل بيته، " (الإمام أحمد) في مسنده من حديث أنس۔ وفيه "يوسف بن أبي درة"، لا يحتج به، وعن أنس موقوفا، وفيه "الفرج بن فضالة عن محمد بن عامر عن محمد بن عبيد الله العرزمي". (أحمد بن منيع) من حديث أنس أيضا، وفيه "عباد بن عباد المهلبي"، كان يأتي بالمناكير، فاستحق الترك. (البغوي) من حديث عثمان بن عفان، وفيه "عزرة بن قيس الأودي" ضعيف، عن "أبي الحسن الكوفي" مجهول، ورواه "عائذ بن بشير"، عن عطاء عن عائشة مرفوعا، و"عائذ" ضعيف، فلا يصح هذا الخبر مرفوعا ولا موقوفا. (تعقبه) الحافظ ابن حجر في "القول المسدد" فقال: ليس هذا الحديث موضوعا؛ فإن له طرقا عن أنس وغيره، يتعذر مع مجموعها الحكم على المتن بأنه موضوع، وأطال الكلام في ذلك، فمن أراده فليراجعه، وكذلك أطال الكلام عليه أيضا في كتابه " الخصال المكفرة للذنوب المتقدمة والمتأخرة " بذكر طرقه وبيان أحوال رجالها.
والله تعالی أعلم بالصواب
دار الإفتاء الإخلاص،کراچی