resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: نبیﷺ کا پاکیزہ نسب اور اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد"آزر" سے متعلق اشکال

(1304-No)

سوال: آپ ﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ میرے شجرہ نسب میں کفر کا شبہ بھی نہیں ہے، جبکہ آذر حضرت ابراھیم علیہ السلام کے والد آپ ﷺ کے شجرہ نسب میں آتے ہیں، مہربانی فرما کر مستند اور مدلل جواب عنایت فرما دیں۔

جواب: واضح رہے کہ نبیﷺ کے نسب کی پاکیزگی و طہارت کے حوالہ سے مختلف روایات ملتی ہیں، جس کی سند پر محدّثین عظام رحمہم اللہ نے کلام کیا ہے، تاہم وہ قابلِ قبول ہیں۔ ان میں بعض روایات مطلقاً جبکہ بعض میں صراحت ملتی ہے کہ اس میں طہارت و پاکیزگی سے مراد نسب کا بدکاری، زنا اور غیر اخلاقی حرکات سے محفوظ ہونا ہے، اس سے طہارت ایمانی مراد نہیں۔ ( فیض القدیر، حرف الحاء، 437/3، الناشر: المكتبة التجارية الكبرى – مصر )
ذیل میں ان روایات کا ترجمہ ذکر کیا جاتا ہے:
حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشادفرمایا:" اللہ ربّ العزت نے(میرے نسب کے لیے) اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے "خاندانِ کنانہ" کا انتخاب کیا، اور اس میں" خاندانِ قریش" کو اختیار کیا، اور اس میں ٗ"خاندان بنو ہاشم" کو خاص کیا، اور بنو ہاشم میں مجھے نبوت سے سرفراز کیا"۔ (صحيح مسلم ، کتاب الفضائل، باب فضل نسب النبی ﷺ، 1783/4، الناشر: مطبعة عيسى البابي الحلبي، القاهرة)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے ارشاد فرمایا:" میں نکاح سے پیدا شدہ ہوں، بدکاری سے وجود میں نہیں آیا، اور میرے نسب میں حضرت آدم سے میرے والدین تک بدکاری کا ثبوت نہیں"۔ (المعجم الأوسط،باب العین، من اسمه: محمد، 80/5، الناشر: دار الحرمين – القاهرة)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: "میرے والدین کبھی زنا میں ملوّث نہیں ہوئے، اللہ عزّوجل مجھے پاکیزہ پشتوں سے پاک ارحام کی جانب منتقل کرتا رہا، جو انتہائی صاف اور پاکیزہ سلسلہ تھا، جہاں کہیں سلسلۂ نسب دو شاخوں میں تقسیم ہوا میں ان میں سے بہتر شاخ میں رہا"۔ (دلائل النبوة، الفصل الأول، ذکر فضیلته ﷺ حسبه ونسبه، رقم الصفحة: 57، الناشر: دار النفائس، بيروت)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد"آزر" سے متعلق محقّق بات:
لفظ"آزر" سے متعلق اکثر اہل لغت کی رائے یہ ہے کہ یہ لفظ "تارخ" سےمعرّب ہے، چونکہ تعریب کا کوئی مقررہ ضابطہ نہیں، بعض الفاظ و اسماء میں خفیف سا تغیر ہوتا ہے، بآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ کس لفظ کی تعریب ہے، جیسے ابراہیم و ابراہام اور ہارون وہاران، جبکہ بعض الفاظ تعریب کے قالب میں ڈھل کر کچھ سے کچھ بن جاتے ہیں۔ (تفصیلی دلائل کے لیے مولانا ادریس میرٹھی کا مضمون بعنوان "آزر" ملاحظہ ہو، بینات اردو، صففر المصفر 1438ھ)
آزر کا کون تھے؟
اس حوالہ سے دو قول ملتے ہیں، بعض مفسّرین کی رائے یہ ہے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چچا تھے، اس قول کو اختیار کرنے والی جماعت کا مقصد نبیﷺ کے دادا عبدالمطلب سے تمام اجداد نبیﷺ کو مؤمن وموحد ثابت کرنا ہے، مگر جمہور کا موقّف یہ ہے کہ ان کے والد تھے، اور حضورﷺ کے تمام اجداد کو مؤمن قراردیا جانا ایک مخصوص جماعت کا عقیدہ ہے، جس پر کوئی معتبر دلیل نہیں۔ (التفسير الكبير، سورة الأنعام ، الآیة: 74 ، الناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت)
اسی طرح حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب سیوہاروی رحمہ اللہ آزر کے متعلق مختلف اقوال نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
ہمارے نزدیک یہ تمام تکلّفات باردہ ہیں، اس لیے کہ قرآن عزیز نے جب صراحت کے ساتھ آزر کو اب ابراہیم (ابراہیم علیہ السلام کا باپ) کہا ہے تو پھر علمائے انساب اور بائبل کے تخمینی قیاسات سے متاثر ہو کر قرآن عزیز کی یقینی تعبیر کو مجاز کہنے یا اس سے بھی آگے بڑھ کر خواہ مخواہ قرآن عزیز میں نحوی مقدرات ماننے پر کونسی شرعی اور حقیقی ضرورت مجبور کرتی ہے الخ۔۔۔ پس بلا شبہ تاریخ کا تارخ (جو سب کے نزدیک بلا شبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام ہے) آزر ہی ہے اور علم اسمی ہے۔ (قصص القرآن، ۱: ۱۲۰، ۱۲۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:

صحيح مسلم ، لمسلم بن الحجاج القشیري النيسابوري (206 - 261 ه)،(کتاب الفضائل، باب فضل نسب النبی ﷺ، 1783/4، المحقق: محمد فؤاد عبد الباقي، الناشر: مطبعة عيسى البابي الحلبي وشركاه، القاهرة):
عن واثلة بن الأسقع-رضي الله عنه- يقول: سمعت رسول الله ﷺ يقول "إن الله اصطفى كنانة من ولد إسماعيل، واصطفى ‌قريشا من كنانة. واصطفى من قريش بني هاشم. واصطفاني من بني هاشم".

المعجم الأوسط، لأبي القاسم سليمان بن أحمد الطبراني (260 - 360 ه)، (باب العین، من اسمه: محمد، 80/5، المحقق: أبو معاذ طارق بن عوض الله بن محمد - أبو الفضل عبد المحسن بن إبراهيم الحسيني، الناشر: دار الحرمين – القاهرة):
عن علي-رضي الله عنه- ، أن النبي ﷺ قال: «خرجت من نكاح، ولم أخرج ‌من ‌سفاح، من لدن آدم إلى أن ولدني أبي وأمي»

دلائل النبوة، أبو نعيم الأصبهاني (ت 430 ه)،(الفصل الأول، ذکر فضیلته ﷺ حسبه ونسبه، رقم الصفحة: 57، حققه: الدكتور محمد رواس قلعه جي، عبد البر عباس، الناشر: دار النفائس، بيروت):
عن ابن عباس-رضي الله عنه- ، قال: قال رسول الله ﷺ: «لم يلتق أبواي في سفاح، لم يزل الله عز وجل ينقلني من ‌أصلاب ‌طيبة إلى أرحام طاهرة، صافيا مهذبا، لا تتشعب شعبتان إلا كنت في خيرهما»

فیض القدیر، لزين الدين محمد المدعو بعبد الرؤوف المناوي القاهري (ت 1031ه)، (حرف الحاء، 437/3، الناشر: المكتبة التجارية الكبرى – مصر):
قوله ﷺ:"خرجت من لدن آدم من نكاح غير سفاح"، أي: متولد من نكاح، لا زنا فيه۔ والمراد: عقد معتبر في دين۔ بل روى البيهقي مرفوعا: "ما ولدني ‌من ‌سفاح الجاهلية شيء، ما ولدني إلا نكاح الإسلام"، يعني الموافق للطريقة الإسلامية۔ وقضية الخبر: أن لا سفاح في آبائه مطلقا، لكن استظهر بعض المحققين أن المراد طهارة سلسلته فقط، ويشهد له ما في المواهب مرفوعا: "لم يلتق أبواي على السفاح"۔

تفسير الكشاف، لمحمود بن عمر بن أحمد الزمخشري [ت 538 ه]،(سورة الأنعام من الآیة 74 إلی 79، ضبطه وصححه ورتّبه: مصطفى حسين أحمد، الناشر: دار الريان للتراث بالقاهرة - دار الكتاب العربي بيروت):
والأقرب: أن يكون وزن ‌"آزر" فاعل، مثل تارح وعابر وعازر وشالخ وفالغ وما أشبهها من أسمائهم، وهو عطف بيان لأبيه.

مفاتيح الغيب = التفسير الكبير، لأبي عبد الله محمد بن عمر الرازي الملقب بفخر الدين الرازي (ت 606ه)، (سورة الأنعام ، الآیة: 74 ، الناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت):
المسألة الرابعة: قالت ‌الشيعة: إن أحدا من آباء الرسول -عليه الصلاة والسلام- وأجداده ما كان كافرا، وأنكروا أن يقال: إن والد إبراهيم كان كافرا، وذكروا أن "آزر" كان عمّ إبراهيم -عليه السلام-، وما كان والدا له۔

والله تعالی أعلم بالصواب
دار الإفتاء الإخلاص کراچی

nabi kareem S.A.W ky abao ajdaad ky imaan /iman ka maslah, میرے شجرہ نسب میں کفر کا شبہ بھی نہیں ہے، حدیث کی وضاحت

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees