سوال:
آپ ﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ میرے شجرہ نسب میں کفر کا شبہ بھی نہیں ہے، جبکہ آذر حضرت ابراھیم علیہ السلام کے والد آپ ﷺ کے شجرہ نسب میں آتے ہیں، مہربانی فرما کر مستند اور مدلل جواب عنایت فرما دیں۔
جواب: آپ ﷺ کے آباء واجداد کے بارے میں صحیح روایت سے یہ بات ثابت ہے کہ خَرَجْتُ مِنْ نِكَاحٍ، وَلَمْ أَخْرُجْ مِنْ سِفَاحٍ، مِنْ لَدُنْ آدَمَ إِلَى أَنْ وَلَدَنِي أَبِي وَأُمِّي،وَلَمْ يُصِبْنِي مِنْ سِفَاحِ الْجَاهِلِيَّةِ شَيْءٌ۔‘‘
(مصنف ابن ابی شیبہ: ٣٠٣/٦، ط:مکتبة الرشد، ریاض۔)
ترجمہ :
سیدنا آدم علیہ الصلاۃ والسلام سے لے کر میرے پورے نسب کے اعتبار سے میں نکاح کے ذریعے آیا ہوں بدکاری کے ذریعے نہیں یہاں تک کہ میرے ماں باپ نے مجھے پیدا کیا، مجھے جاہلیت کی گندگی میں سے کوئی چیز نہیں پہنچی۔
کیانبی اکرم ﷺکے سب آباء و اجداد مؤمن و مُوَحِّد تھے؟ ا ن میں کوئی بھی کافر و مشرک نہیں تھا۔
یہ بات کسی حدیث سے تو ثابت نہیں، البتہ بعض علماۓ جیسے علامہ جلال الدین سیوطی، امام رازی، علی بن ابراہیم الحلبی مؤلف السیرة الحلبیة وغیرہ کا مسلک یہ ہے آپ ﷺ کے آباو اجداد میں کوئی مشرک و کافر نہیں تھا، بلکہ سب مؤحد و مؤمن تھے۔ ان آبا النبی صلی الله عليه وآله وسلم غير الانبياء وامهاته الی آدم وحوا ليس فيهم کافر لان الکافر لایوصف بانه طاهر .
(السیرة الحلبیة:١/٦٥، ط: دارالکتب العلمیہ بیروت)
ترجمہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلہ نسب غیر انبیاء میں، جس قدر آباء و امہات آدم و حوا تک ہیں، ان میں کوئی کافر نہ تھا کیونکہ کافر کو پاک نہیں کہا جاسکتا۔
اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد آزر کے متعلق سوال ہوتا ہےکہ قرآن کریم نے آزر کو ابراہیم علیہ السلام کا باپ بتایا اور وہ تو بت تراش تھے اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلہ نسب میں مشرک آگیا؟
تو اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ آزر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا چچا تھا، باپ نہیں تھا۔
لیکن یہ بات قرآن کریم صریح اور واضح آیات کے خلاف ہے کیونکہ سورۃ انعام میں ہے:
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً ۖ" جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ آزر سے کہا کہ کیا تو بتوں کو دیوتا بناتا ہے؟"(آیت 74)
حضور اکرمﷺ کے والدین کریمین کے ایمان و عدم ایمان کا مسئلہ :
حضور اکرمﷺ کے والدین کریمین کے ایمان وعدم ایمان کے بارے میں علماۓ کرام کے تین مسالک ہیں:
پہلامسلک:
آپ ﷺ کے والدین زمانہ فترت میں انتقال کرگئے تھے اور ان کے نزدیک، جو لوگ زمانہ فترت میں صریح شرک اور بت پرستی سے دور رہے، یہ بات ان کے آخرت میں نجات کے لیے کافی ہوگی۔
دوسرا مسلک:
حضور اکرمﷺ کے والدین کا دامن کبھی شرک و کفر سے داغ دار نہیں ہوا، وہ ساری عمر حضرت ابراہیم علیہ السلام دین پر رہے۔
تیسرا مسلک:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کو ان کی وفات کے بعد زندہ کیا گیا تھا اورآ پ صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لائے تھے۔(التفصیل فی الفتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد:٨/١٦٨، ط: داراحیاء التراث العربی)
محتاط قول:
فتاوی شامی (3/ 184) میں اس مسئلہ پر تفصیلا کلام کرنے کے بعد آخر میں لکھا کہ
وبالجملة كما قال بعض المحققين: إنه لا ينبغي ذكر هذه المسألة إلا مع مزيد الأدب. وليست من المسائل التي يضر جهلها أو يسأل عنها في القبر أو في الموقف، فحفظ اللسان عن التكلم فيها إلا بخير أولى وأسلم''(کتاب النکاح، باب نكاح الكافر، مطلب في الكلام على أبوي النبي صلى الله عليه وسلم )
ترجمہ:
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جیسا کہ بعض محققین نے کہا ہے کہ اس مسئلہ کو حد درجہ ادب کے بغیر ذکر کرنا ہی مناسب نہیں ہےاور یہ ان مسائل میں سے نہیں ہیں کہ جن سے ناواقفیت نقصان کا باعث ہو یا جن کے بارے میں قبر یا حشر میں پوچھ گچھ ہوگی، پس اپنی زبان کو، اس مسئلہ میں بات کرنے سے روکنا ہی بہتر ہے۔
لہذا ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں کوئی قطعی بات نہیں کہی جاسکتی، اور تحقیقی بات یہ ہے کہ اس طرح کے معاملات میں "توقف" کرنا چاہئے، اس لیے کہ یہ مسئلہ عقائدِ اسلام میں سے نہیں ہے، نہ ہی عمل سے اس کا کوئی تعلق ہے، ہم مسلمانوں کو تو چاہیے، ایسی چیزوں میں اپنا قیمتی وقت صرف کریں، جن میں ہمارے لیے دنیا یا آخرت کا کوئی فائدہ ہو؟ نیز اس مسئلے میں ”بحث“ کرنے سے بسا اوقات ایسی بات بھی زبان یا قلم پر آسکتی ہے، جو خلافِ ادب ہو، اس لیے اس مسئلے میں"توقف" اور خاموشی ہی بہتر ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی