سوال:
السلام علیکم،مفتی صاحب ! اگر شوہر اور بیوی میں طلاق ہو جائے اور بیوی کے ساتھ 5 اور 10 سال کے دو بچے ہوں اور ان بچوں کی پرورش کے لیے ان بچوں کی ماں اسکول میں پڑھاتی ہو، مطلب یہ ہے کہ بچوں کے باپ کی طرف سے کوئی بھی مدد نہی اور بچوں کا باپ زندہ ہو، کیا ان بچوں کو یتیم سمجھنا ٹھیک ہے یا غلط؟ نیز کیا ان بچوں کی مدد کرنے پر ثواب ملے گا؟
جواب: واضح رہے کہ شرعاً یتیم ایسے نابالغ لڑکے یا لڑکی کو کہا جاتا ہے، جس کے والد کی وفات ان کی بلوغت سے پہلے ہوگئی ہو، چونکہ سوال میں مذکور صورت میں جن بچوں کا ذکر کیا گیا ہے، وہ یتیم ہونے کے زمرے میں نہیں آتے، تاہم اگر وہ تنگ دست ہوں تو ان کی مدد کرنے سے ضرور ثواب ملےگا، بلکہ معاشرے کے ایسے نادار افراد کی مدد کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: (254/45، ط: دار السلاسل)
اليتيم في اللغة: الفرد وكل شيء يعز نظيره واليتيم بضم الياء وفتحها: الانفراد أو فقدان الأب، والأنثى يتيمة والجمع أيتام ويتامى.
قال ابن السكيت: اليتيم في الناس من قبل الأب، وفي البهائم من قبل الأم، ولا يقال لمن فقد الأم من الناس يتيم.
وفي الاصطلاح: عرف الفقهاء اليتيم بأنه من مات أبوه وهو دون البلوغ. لحديث: " لا يتم بعد احتلام ".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی