resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: خوشبو ، تکیہ اور دودھ لوٹانےسے احتیاط (1317-No)

سوال: مفتی صاحب! کیا کسی مستند حدیث میں آتا ہے کہ خوشبو، تکیہ اور دودھ واپس نہیں کرنا چاہیے؟

جواب:
اس حوالہ سے ذخیرہ احادیث میں روایت ملتی ہے، جس کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی" سنن" میں ذکر کیا ہے، روایت کی سند میں موجود ایک راوی "عبداللہ بن مسلم" کو محدّثین عظام رحمہم اللہ نے ضعیف قراردیا ہے، تاہم روایت میں موجود باقی راویوں کے معتبر ہونے کی وجہ سے روایت "حسن " درجہ کی ہے، سو اس روایت کو آگے نقل کرنا درست ہے۔ ذیل میں روایت کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے:
"حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: "تین چیزوں کو واپس نہ کیا جائے:تکیہ، تیل اور دودھ"۔
مذکورہ چیزوں کو قبول کرنے کی ترغیب میں حکمت:
واضح رہے کہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ قرآن وحدیث میں ہر حکم کو (اس کا مرتبہ سمجھ کر) بغیر کوئی علت وحکمت تلاش کیے اس پر عمل پیرا ہونے کی مکمل کوشش کرے، پھر خواہ اس میں موجود حکمت وعلت اس کی سمجھ کے موافق ہو یا نہیں۔ تاہم احکام شرعیہ کے حکم و مصالح سے باخبر علماء محققین کی جانب سے اس حکم کی حکمت یوں بیان کی گئی ہے کہ مذکورہ تینوں چیزوں کی جانب انسانی طبیعت کا میلان ہوتا ہے، اور ان کے دیتے وقت دینے والے پر کوئی بوجھ نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے انکار کرنے والے کے پاس یہ عذر بھی باقی نہیں رہتا کہ وہ یوں کہے میں اس کو اس وجہ سے قبول نہیں کررہا کہ اس میں دینے والے کو تکلیف ہوگی۔
اس کے باوجود اگر کوئی مذکورہ تینوں چیزوں میں سے کسی چیز کو (یا ہر وہ چیز جو نہایت مختصر ہو، اور دینے والے پر بوجھ نہ ہوتا ہو، سو ایسی کسی چیز کو )بغیر کوئی وجہ ذکر کیے لوٹائے تو یہ بظاہر تکبّر معلوم ہوتا ہے، یہاں نبی کریم ﷺنے اس تکبّر کے شائبہ کو بھی ختم فرماتے ہوئے قبول کرنے کی ترغیب دی ہے، تاکہ تحفہ دینے والے کو خوشی محسوس ہو، کیونکہ کسی مسلمان کا دل خوش کرنا بھی باعث اجر وثواب ہے۔ (الکوکب الدري، باب ما جاء في حفظ العورة، 413/3، الناشر: مطبعة ندوة العلماء الهند)
عذر کی صورت میں قبول کرنے کا حکم:
اس حوالے سے یہ بھی جان لینا چاہیے کہ مذکورہ روایت کے تحت شارحینِ حدیث کی عبارات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس حدیث کے مقتضیٰ پر عمل کرنا بہتر ہے، اگر کوئی نہیں کرتا تو اس پر کوئی گناہ نہ ہوگا (فیض القدیر، حرف الثاء، 310/3، الناشر: المكتبة التجارية الكبرى – مصر) چنانچہ اگر کوئی شخص مذکورہ چیزیں کسی خارجی عذر کی بناء پر قبول کرنے سے معذرت کرے، مثلاً: اس کو طبعی طور پر استعمال کی رغبت نہ ہو، یا حرام آمدن سے حاصل کی گئی چیز ہو، یا کسی سےبغیر اجازت یا غصب کرکے ہدیہ کی جارہی ہو وغیرہ ، ایسی صورت میں انکار کرنے والا شخص گناہگار نہیں ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل :

سنن الترمذي، لأبي عيسى محمد بن عيسى بن سورة الترمذي (المتوفی: 279 ه)، باب ما جاء في كراهية ردّ الطیب، 78/5، محقق المجلد الخامس: جمال عبد اللطيف ، الناشر: دار الرسالة العالمية):
عن ابن عمر-رضي الله عنهما-، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "‌ثلاث لا ترد: الوسائد، والدهن، واللبن".
وقال الترمذي:"هذا حديث غريب".

المفاتيح في شرح المصابيح، لمظهر الدین الزیداني (ت 727 ه)، (باب العطایا، 523/3، تحقيق ودراسة: لجنة مختصة من المحققين بإشراف: نور الدين طالب، الناشر: دار النوادر):
قوله ﷺ: "ثلاث لا ترد: الوسائد والدهن واللبن"۔ يعني: إذا أعطاكم أحد وسادة لتجلسوا عليها أو تتكئوا عليها فاقبلوها، وكذلك إذا أعطاكم أحد طيبا أو ‌لبنا فاقبلوه؛ لأن ‌المنة فيهن قليل، ولأنكم لو لم تقبلوا هذه الأشياء يتأذى المعطي منكم، ويحصل بينكم بغض وعداوة.

فتح الباري لابن حجر العسقلاني(المتوفی 852 ه)، (کتاب الهبة، 209/5، رقم كتبه وأبوابه وأحاديثه: محمد فؤاد عبد الباقي [ت 1388 ه]، قام بإخراجه وتصحيح تجاربه: محب الدين الخطيب [ت 1389 ه]، الناشر: المكتبة السلفية – مصر):
قوله: (باب ما لا يرد من الهدية) كأنه أشار إلى ما رواه الترمذي من حديث ابن عمر -رضي الله عنهما- مرفوعا: "ثلاث لا ترد: الوسائد والدهن واللبن"۔ قال الترمذي: يعني بالدهن الطيب، ‌إسناده ‌حسن، إلا أنه ليس على ‌شرط البخاري، فأشار إليه، واكتفى بحديث أنس- رضي الله عنه-:"أنه صلى الله عليه وسلم كان لا يرد الطيب".

الأشباه و النظائر،( الفن الأول، النوع الثانی، القاعدة الثانية: اذا اجتمع الحلال و الحرام غلب الحرام، ص: 96، ط: دار الکتب العلمية)
الثامنة: إذا كان غالب مال المهدي حلالا، فلا بأس بقبول هديته، وأكل ماله ما لم يتبين أنه من حرام، وإن كان غالب ماله الحرام: لا يقبلها، ولا يأكل إلا إذا قال: إنه حلال ورثه أو ‌استقرضه.

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، للملا علي القاري الهروي (ت 1014ه)، (باب العطایا، 2013/5، الناشر: دار الفكر، بيروت - لبنان ):
قوله ﷺ :«ثلاث من الهدايا لا ترد» ) أي: لا ينبغي أن ترد لقلة منتها، وتأذي ‌المهدي إياها ۔ وقوله ﷺ (الوسائد والدهن واللبن) قال الطيبي -رحمه الله-: " يريد أن يكرم الضيف بالوسادة والطيب واللبن، وهي هدية قليلة ‌المنة فلا ينبغي أن تردّ "۔
فیض القدیر، لعبدالرؤف المناوي(ت 1031ه)، (حرف الثاء، 310/3، الناشر: المكتبة التجارية الكبرى – مصر):
"قوله ﷺ: (ثلاث لا ترد) أي: لا ينبغي ‌ردها"۔

لمعات التنقیح، لعبدالحق الدهلوي الحنفي(المتوفی: 1052 ه)، باب العطایا، الفصل الثالث، 681/5، تحقيق وتعليق: الأستاذ الدكتور تقي الدين الندوي، الناشر: دار النوادر، دمشق – سوريا):
قوله ﷺ :"لا ترد الوسائد": جمع وسادة، بالكسر ويثلث، وقد يجمع على وُسُدٍ، وهي المتكأ والْمِخَدَّة، وإنما لا تُرَدّ؛ لكونها هدايا قليلة المؤنة، وفيها تكريم الضيف".

الکوکب الدري علی جامع الترمذي، للشیخ رشيد أحمد الكنكوهي (ت 1323 ه)، باب ما جاء في حفظ العورة، 413/3، جمعها ورتبها: محمد يحيى بن محمد إسماعيل الكاندهلوي (ت 1334 ه)، المحقق: محمد زكريا بن محمد يحيى الكاندهلوي، الناشر: مطبعة ندوة العلماء الهند):
قوله ﷺ : "‌ثلاث لا ترد"؛ لأن الطباع مائلة إليها، فالرد فيها لا يكون إلا محضًا من التكلف الظاهري، إذ ليس فيها مؤنة ومشقة على المهدي، حتى يتعلل بأن الرد لأجل الإبقاء عليه۔ فلا يكون إلا تكبرًا، وقوله ﷺ : "والدهن" أي العطر؛ فإنه لا يكون إلا دهنًا.

والله تعالی أعلم بالصواب
دار الإفتاء الإخلاص کراچی

3 cheezen wapas nahi kerni chaiye Hadees ke tahqeeq/tehqeeq خوشبو، تکیہ اور دودھ واپس نہیں کرنا چاہیے، حدیث کی تحقیق, Confirmation of a hadith about Three things should not be returned.

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Interpretation and research of Ahadees