عنوان: کیا دعا کے الفاظ کے لئے سنت سے ثابت ہونا ضروری ہے؟(1321-No)

سوال: کیا جو دعا سنت سے ثابت نہ ہو یا جس میں شک ہو، اس کو مانگ سکتے ہیں؟

جواب: دعاء کی دو قسمیں ہیں:
پہلى قسم:مقيد دعا
وہ دعا جو كسى وقت يا جگہ يا عبادت كے ساتھ خاص ہو يا پھر جس كو شريعت نے تعداد يا فضيلت كے ساتھ مقيد كيا ہو، يا اور كوئى قيد لگائى ہو مثلاً:صبح و شام كے وقت كى دعائيں اور سوتے وقت كى دعائيں، اور كھانے كى دعائيں.
پہلی قسم کا حکم:
دعا كى اس قسم ميں کسی قسم کی كمى يا زيادتى نہيں كى جا سكتى، اور كوئى اور دعا ایسی نہيں بنائی جاسكتى كہ وہ سنت ميں ثابت شدہ كے قائم مقام بن سكے۔
دلیل:
عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ  قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :  " إِذَا أَتَيْتَ مَضْجَعَكَ فَتَوَضَّأْ وُضُوءَكَ لِلصَّلَاةِ، ثُمَّ اضْطَجِعْ عَلَى شِقِّكَ الْأَيْمَنِ، ثُمَّ قُلِ : اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ، وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ، رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ، لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَى مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ، اللَّهُمَّ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ، وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ. فَإِنْ مُتَّ مِنْ لَيْلَتِكَ فَأَنْتَ عَلَى الْفِطْرَةِ، وَاجْعَلْهُنَّ آخِرَ مَا تَتَكَلَّمُ بِهِ ". قَالَ فَرَدَّدْتُهَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا بَلَغْتُ : اللَّهُمَّ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ قُلْتُ : وَرَسُولِكَ، قَالَ : " لَا، وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ۔
(صحيح البخاري ، كِتَابٌ : الْوُضُوءُ ،بَابُ فَضْلِ مَنْ بَاتَ عَلَى الْوُضُوءِ. حدیث نمبر: 247)
ترجمہ
" براء بن عازب رضى اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
جب تم سونے كے ليے اپنے بستر پر جاؤ تو نماز كے وضوء كى طرح وضوء كر كے اپنے دائيں پہلو پر ليٹ جاؤ، پھر يہ دعا پڑھو:
اے اللہ ميں اپنے آپ كو تيرے مطيع كر ديا، اور اپنا معاملہ تيرے سپرد كر ديا، اور اپنا چہرہ تيرى طرف پھير ليا تيرى رغبت كرتے ہوئے اور تجھ سے ڈرتے ہوئے نہ تجھ سے پناہ كى جگہ ہے اور نہ كوئى بھاگ كر مگر تيرى طرف، ميں تيرى كتاب پر ايمان لايا اور تيرے نبى پر ايمان لايا جسے تو نے بھيجا "
اگر تمہيں اس رات موت آ جائے تو تم فطرت پر ہو، اور يہ كلمات تمہارے آخرى كلمات ہوں، اس كے بعد كسى سے بات مت كرو، براء بن عازب بيان كرتے ہيں کہ ميں نے يہ دعا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے دہرائى اور جب اللھم آمنت بكتابك الذى انزلت پر پہنچا تو ميں نے اس كے بعد رسولك كہہ ديا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا نہيں كہو ونبيك الذى ارسلت "
اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ مسنون دعاؤں میں اپنی طرف سے کمی بیشی جائز نہیں ہے۔
دوسرى قسم:مطلق دعا
وہ دعائیں، جو اللہ تعالى سے اپنی جملہ ضروريات کے لئے مانگی جائیں۔
دوسری قسم کا حکم:
ان دعاؤں کا سنت سے ثابت ہونا شرط نہيں ہے، بلكہ اتنی بات کافی ہے کہ كہ دعا كے الفاظ شرعاً درست ہوں، لہذا اگر اپنی حاجت کے لئے کوئی دعا مانگی جائے یا کسی بزرگ کی مجرب دعا کو پڑھا جائے تو جائز ہے، بشرطیکہ سنت سمجھ کر نہ پڑھا جائے اور مسنون دعا کی طرح اہتمام نہ کیا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

فتاوی اللجنة الدائمة: (203/24، ط: رئاسة إدارة البحوث العلمية و الإفتاء)

باب الأدعية واسع ، فليدع العبد ربه بما يحتاجه مما لا إثم فيه۔أما الأدعية والأذكار المأثورة : فالأصل فيها التوقيف من جهة الصيغة والعدد ، فينبغي للمسلم أن يراعي ذلك ، ويحافظ عليه ، فلا يزيد في العدد المحدد ، ولا في الصيغة ، ولا ينقص من ذلك ولا يحرف فيه

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 487 Apr 18, 2019
kiya dua ky alfaaz keliye sunnat sy sabit hona zaroori hai , Is it necessary to prove the words of dua from the Sunnah?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Azkaar & Supplications

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.