سوال:
مولوی صاحب! کیا شرعی لحاظ سے کوئی آیت، حدیث یا کوئی جوازعورت کی حکمرانی کا ملتا ہے؟
جواب: اسلام ایک مكمل ضابطۂ حیات اور فطری نظام ہے اور ہر لحاظ سے کامل اور مکمل ہے، چنانچہ دیگر نظاموں کے برخلاف سربراہِ مملکت اور حاکم کے لیے اسلام نے ایک مکمل حکم جاری فرمایا ہے اور حکمرانی کا اہل اس کو قرار دیا ہے جس میں اس کے بیان کردہ خاص اوصاف اور شرائط پائی جائیں، ان شرائط میں سے ایک اہم شرط حاکم کا "مرد" ہونا ہے، جو درج ذیل حدیث سے ثابت ہے:"لن يفلح قوم ولوا أمرهم امرأة". (صحیح البخاري: 7099)
"وہ قوم ہرگز فلاح نہیں پائے گی، جس نے اپنے اوپر کسی عورت کو حاکم بنالیا ہو"۔
اور اس شرط کی وجہ یہ ہے کہ اسلام ایک فطری نظام ہے اور فطرت کی رعایت رکھتے ہوئے احکامات صادر کرتا ہے اور فطری لحاظ سے عورت امورِ خانہ داری، اولاد کی تربیت اور گھر کے اندر کے کاموں کے لیے مختص ہے، جبکہ مرد کسبِ معاش اور دیگر باہر کے کاموں کا ذمہ دار ہے اور انہی ذمہ داریوں میں سے ایک بڑی ذمہ داری حکمرانی ہے، چنانچہ حکمرانی اور قیادت کے سلسلے میں گھر سے باہر نکلنا، مختلف لوگوں سے ملنا جلنا، ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور سفر کرنا پڑتا ہے، جبکہ عورت کو بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلنے کی تعلیم اور ترغیب دی گئی ہے، اس لیے عورت کو قیادت سنبھالنے سے منع کیا گیا ہے۔ نیز قرآن کریم میں میں بھی اس بات کی طرف اشارہ دیا گیا ہے کہ حکمرانی کا حقیقی حق دار اور ذمہ دار مرد ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَلرِّجَالُ قَوَّامُوۡنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعۡضَهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ وَّبِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِهِمۡ ؕ (النساء: الایة: 34)
ترجمہ: "مرد عورتوں کے نگران ہیں، کیونکہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور کیونکہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں"۔
لہذا قرآن وسنت کی تعلیمات کی روشنی میں عورت کو خود مختار حاکم بنانا شرعاً جائز نہیں ہے، تاہم عورت چونکہ مشورہ کی اہل ہے، اس لئے شرعی حدود کی رعایت رکھتے ہوئے عورت کو مجلس شوری کا ممبر اور رکن بنایا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح البخاري: (رقم الحدیث: 7099، ط: دار طوق النجاة)
عن أبي بكرة قال لقد نفعني الله بكلمة أيام الجمل لما بلغ النبي ﷺ أن فارسا ملكوا ابنة كسرى قال لن يفلح قوم ولوا أمرهم امرأة.
تفسیر ابن کثیر: (النساء، الاية: 34)
النبوة مختصة بالرجال وکذلك المُلك الأعظم؛ لقوله صلی الله علیه وسلم: لن یُفلِح قومٌ وَلَّوا أمرهم امرأة.
سنن الترمذى: (رقم الحديث: 2266، ط: دار الغرب الإسلامي)
عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا كان أمراؤكم خياركم وأغنياؤكم سمحاءكم» وأموركم شورى بينكم فظهر الأرض خير لكم من بطنها، وإذا كان أمراؤكم شراركم وأغنياؤكم بخلاءكم وأموركم إلى نسائكم فبطن الأرض خير لكم من ظهرها.
الدر المختار مع رد المحتار: (مطلب شروط الإمامة الكبرى، 548/1، ط: دار الفكر)
ویشترط کونه مسلمًا حرا ذکرًا عاقلاً بالغًا.........
لأن النساء أمرن بالقرار في البیوت فکان مبنی حالهن علی الستر، وإلیه أشار النبي صلی اللّٰه علیه وسلم حیث قال: "کیف یفلح قوم تملكهم امرأة.
شرح الكبير علي المقنع: (كتاب القضاء، 28/299، ط: هجر للطباعة و النشر و التوزيع و الإعلان، القاهرة)
ولا تصلح للامامة العظمى، ولا لتولية البلدان، ولهذا لم يول النبي - صلى الله عليه وسلم -، ولا أحد من خلفائه، ولا من بعدهم امرأة قضاء ولا ولاية بلد، فيما بلغنا، ولو جاز ذلك لم يخل منه جميع الزمان غالبا.
الاحكام السلطانية للماوردی: (ص: 27-28، ط.: دار الفکر)
فصل وأما التنفیذ فحکمها أضعف و شروطها أقل…الخ ولا یجوز أن تقوم بذلك امرأة و إن کان خبرها مقبولا لما تضمنه معنی الولایات المعروفة عن النساء لقول النبی صلی الله علیه وسلم: "ما أفلح قوم أسندوا أمرهم إلى امرأة" ولأن فيها من طلب الرأي و ثبات العزم ما تضعف عن النساء و من الظهور
عن مباشرة الأمورها هو عليهن محظور.
اسلام اور سیاسی نظریات: (ص: 210، 212، ط: مکتبه معارف القرآن)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی