سوال:
مفتی صاحب! اس آیت وَ اِذَا كُنْتَ فِیْهِمْ فَاَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلٰوةَ فَلْتَقُمْ طَآىٕفَةٌ مِّنْهُمْ مَّعَكَ وَ لْیَاْخُذُوْۤا اَسْلِحَتَهُمْ...الخ (سورۃ النساء، الایة:102) کی تفسیر بتادیں، اور اس آیت میں نماز کا جو طریقہ ذکر کیا گیا ہے، وہ بھی مکمل وضاحت کے ساتھ بیان فرمادیں۔
جواب: مذکورہ آیت میں اللہ تبارک وتعالی نے جس نماز کے طریقہ کو بیان فرمایا ہے، یہ کوئی الگ نماز نہیں ہے، بلکہ دشمن سے مقابلہ کرتے وقت جب فرض یا واجب نماز کا وقت آجائے، اور دشمن کی طرف سے حملہ کے یقینی خطرہ کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے ایک ساتھ باجماعت نماز پڑھنا مشکل ہو تو ایسی صورت میں مسلمان مذکورہ طریقہ کے مطابق نماز پڑھ سکتے ہیں۔
یہ طریقہ نماز اس وقت پڑھنے کا ہے، جب سب لوگ ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھنا چاہتے ہوں، مثلاً کوئی بزرگ ہو، اور سب چاہتے ہوں کہ اس کے پیچھے نماز پڑھیں، ورنہ بہتر یہ ہے کہ ایک گروہ ایک امام کے ساتھ پوری نماز پڑھ لے، اور دشمن کے مقابلے میں چلا جائے، پھر دوسرا گروہ دوسرے شخص کو امام بناکر پوری نماز پڑھ لے۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ تمام لوگوں کے دو گروہ بنادیئے جائیں، ایک گروہ دشمن کے مقابلے میں رہے، اور دوسرا گروہ امام کے ساتھ نماز شروع کردے۔ اگر تین یا چار رکعت والی نماز ہو، جیسے ظہر، عصر، مغرب، عشاء، اور یہ لوگ مسافر نہ ہوں تو جب امام دو رکعت نماز پڑھ کر تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہونے لگے، تب یہ لوگ ( پہلے گروہ والے) چلے جائیں، اور اگر یہ لوگ مسافر ہوں یا دو رکعت والی نماز ہو، جیسے فجر، جمعہ، عیدین کی نماز تو امام کے پہلی رکعت کے دوسرے سجدے سے سر اٹھانے کے بعد یہ لوگ دشمن کے مقابلہ میں چلے جائیں، اور دوسرا گروہ وہاں سے آکر امام کے ساتھ بقیہ نماز پڑھے، امام کو ان لوگوں کے آنے کا انتظار کرنا چاہیے، پھر جب امام بقیہ نماز مکمل کرلے تو سلام پھیردے، اور یہ لوگ (دوسرے گروہ والے) بغیر سلام پھیرے دشمن کے مقابلے میں چلے جائیں، اور پہلے گروہ کے لوگ یہاں آکر اپنی بقیہ نماز بغیر قراءت کے پڑھ کر تشہد کے بعد سلام پھیر دیں، پھر یہ لوگ دشمن کے مقابلے میں چلے جائیں، اور دوسرا گروہ یہاں آکر اپنی بقیہ نماز قراءت کے ساتھ مکمل کرکے سلام پھیردے۔
واضح رہے کہ دوسرے گروہ کا امام کے ساتھ بقیہ نماز پڑھ کر چلاجانا، اور پہلے گروہ کا پھر یہاں آکر اپنی نماز مکمل کرنا، اسی طرح دوسرے گروہ کا یہیں آکر اپنی نماز مکمل کرنا مستحب اور افضل ہے، ورنہ یہ بھی جائز ہے کہ پہلا گروہ نماز پڑھ کر چلا جائے، اور دوسرا گروہ امام کے ساتھ بقیہ نماز پڑھ کر وہیں اپنی نماز مکمل کرکے دشمن کے مقابلہ میں جائے، جب یہ لوگ وہاں پہنچ جائیں تو پہلا گروہ اپنی نماز وہیں پڑھ لے، یہاں نہ آئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الآیة: 102)
وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ وَلْيَأْخُذُوا أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذَا سَجَدُوا فَلْيَكُونُوا مِن وَرَائِكُمْ وَلْتَأْتِ طَائِفَةٌ أُخْرَىٰ لَمْ يُصَلُّوا فَلْيُصَلُّوا مَعَكَ وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ ۗ وَدَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ تَغْفُلُونَ عَنْ أَسْلِحَتِكُمْ وَأَمْتِعَتِكُمْ فَيَمِيلُونَ عَلَيْكُم مَّيْلَةً وَاحِدَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن كَانَ بِكُمْ أَذًى مِّن مَّطَرٍ أَوْ كُنتُم مَّرْضَىٰ أَن تَضَعُوا أَسْلِحَتَكُمْ ۖ وَخُذُوا حِذْرَكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا o
صحيح مسلم: (رقم الحديث: 839، 574/1، ط: دار إحياء التراث العربي)
عن ابن عمر قال: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الخوف. بإحدى الطائفتين ركعة، والطائفة الأخرى مواجهة العدو، ثم انصرفوا وقاموا في مقام أصحابهم مقبلين على العدو، وجاء أولئك، ثم صلى بهم النبي صلى الله عليه وسلم ركعة، ثم سلم النبي صلى الله عليه وسلم، ثم قضى هؤلاء ركعة، وهؤلاء ركعة.
الدر المختار مع رد المحتار: (187/2، ط: دار الفکر)
هذا وإن تنازعوا في الصلاة خلف واحد وإلا فالأفضل أن يصلي بكل طائفة إمام.
(قوله: وهذا) أي ما ذكر من الصلاة على هذا الوجه إنما يحتاج إليه لو لم يريدوا إلا إماما واحدا، وكذا لو كان الوقت قد ضاق عن صلاة إمامين كما في الجوهرة.
قلت: ويمكن أن يكون هذا مراد صاحب مجمع الأنهر فيما تقدم فتأمل (قوله: فالأفضل إلخ) أي فيصلي الإمام بطائفة ويسلمون ويذهبون إلى جهة العدو ثم تأتي الطائفة الأخرى فيأمر رجلا ليصلي بهم.
تسہیل بہشتی زیور: (322/1، ط: کتاب گھر)
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی