سوال:
یہ سنتے آئے ہیں کہ سبعہ عشرہ کی قراءت کا علم حاصل کرنا فرض کفایہ ہے، اسی طرح ضروریاتِ دین سے زائد علم کی تحصیل فرض کفایہ ہے۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ اس فرض کفایہ کی کوئی حد بندی بھی ہے یا نہیں؟ مثلاً: یہ فرض کفایہ کا حکم ہر بستی والوں کے لئے الگ ہے یا شہر والوں کے اعتبار سے ہے یا ملک کے اعتبار سے ہے یا پوری دنیا کے اعتبار سے ہے؟ اس اعتبار سے اگر بستی میں کوئی عالم یا مجوّد قاری نہیں ہے لیکن ضلعی سطح یا صوبائی سطح پر موجود ہے تو اتنی مسافت پر موجود ہونے کی وجہ سے کیا بقیہ افراد بری الذمہ ہو جائیں گے یا نہیں؟
خلاصہ سوال یہ ہے کہ فرض کفایہ کی ادائیگی میں کوئی حد بندی ہے یا نہیں؟ نیز یہ حکم عام ہوتا ہے یا ہر شہر بستی وغیرہ کے اعتبار سے ہوتا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ جن علوم کا حاصل کرنا فرضِ کفایہ ہے، شریعت کی طرف سے ان کے لیے حد بندی مقرر کرتے ہوئے ہر شہر میں اس کے کسی ماہر کے موجود ہونے کو لازم قرار دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کسی شہر میں ان علوم کا کوئی حامل موجود نہ ہو تو سارے شہر والے گنہگار ہوں گے، لہذا ہر شہر میں بقدر ضرورت ان علوم کے حاملین لوگ موجود ہونے چاہیے تاکہ باقی مسلمان اس فریضہ سے بریُ الذّمہ ہوجائیں۔ (مستفاد: معارف القرآن، 489/4، ط: مکتبہ معارف القرآن)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:
رد المحتار: (123/4، ط: دار الفکر)
وحاصله: أن فرض الكفاية ما يكفي فيه إقامة البعض عن الكل؛ لأن المقصود حصوله في نفسه من مجموع المكلفين كتغسيل الميت وتكفينه ورد السلام بخلاف فرض العين؛ لأن المطلوب إقامته من كل عين أي من كل ذات مكلفة بعينها، فلا يكفي فيه فعل البعض عن الباقين، ولذا كان أفضل كما مر؛ لأن العناية به أكثر ثم إن فرض الكفاية إنما يجب على المسلمين العالمين به سواء كانوا كل المسلمين شرقا ومغربا أو بعضهم قال القهستاني. وفيه رمز إلى أن فرض الكفاية على كل واحد من العالمين به بطريق البدل، وقيل: إنه فرض على بعض غير معين والأول المختار؛ لأنه لو وجب على البعض، لكان الآثم بعضا مبهما، وذا غير مقبول وإلى أنه قد يصير بحيث لا يجب على أحد، وبحيث يجب على بعض دون بعض، فإن ظن كل طائفة من المكلفين أن غيرهم قد فعلوا سقط الواجب عن الكل؛ وإن لزم منه أن لا يقوم به أحد وإن ظن كل طائفة أن غيرهم لم يفعلوا وجب على الكل، وإن ظن البعض أن غيرهم أتى به وظن آخرون أن غيرهم ما أتى به وجب على الآخرين دون الأولين، وذلك لأن الوجوب ههنا منوط بظن المكلف؛ لأن تحصيل العلم بفعل الغير وعدمه في أمثال ذلك في حيز التعسر، فالتكليف به يؤدي إلى الحرج وتمامه في مناهج العقول وإلى أنه لم يجب على الجاهل به وما في حواشي الكشاف للفاضل التفتازاني إنه يجب عليه أيضا فمخالف للمتداولات اه.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی