سوال:
ھماری گاڑی میں ایک صاحب بیان لگادیتے ہیں، جبکہ گاڑی میں کچھ لوگ سو رہے ھوتے ہیں، کچھ باتیں کررہے ھوتے ہیں، ایسی صورت میں میں بیان چلنے سے روک سکتا ھوں، گناہ گار تو نہیں ھونگا؟
جواب: واضح رہے کہ دین کی بات سننا، تب مفید ہوتا ہے جب سننے والے اپنے آپ کو اس کے محتاج سمجھ کر سنیں، لہذا اگر گاڑی میں سب ہمسفروں کی رائے لے کر علماء کرام کے اصلاحی بیانات لگائے جائیں، تو امید ہے یہ طریقہ زیادہ مفید ہوگا، ورنہ جو صورتحال سوال میں ذکر کی گئی ہے، اس سے محسوس ہوتا ہے کہ سننے والوں کو دلچسپی نہیں ہے، اس سے ایک طرح کا دین کی بات سننے سے اعراض محسوس ہوتا ہے، جو کہ بے ادبی کے زمرے میں آتا ہے، لہذا سننے والوں کی رضامندی حاصل کرکے بیانات سنوانے چاہئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (ق، الایة؛ 37)
اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَذِکۡرٰی لِمَنۡ کَانَ لَہٗ قَلۡبٌ اَوۡ اَلۡقَی السَّمۡعَ وَ ہُوَ شَہِیۡدٌo
صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 68، 25/1، ط: دار طوق النجاۃ)
حدثنا محمد بن يوسف، قال: أخبرنا سفيان، عن الأعمش، عن أبي وائل، عن ابن مسعود، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم «يتخولنا بالموعظة في الأيام، كراهة السآمة علينا»
(يتخولنا بالموعظة) يتعهدنا مراعيا أوقات نشاطنا ولا يفعل ذلك دائما. (كراهة السآمة) لا يحب أن يصيبنا الملل]
70 - حدثنا عثمان بن أبي شيبة، قال: حدثنا جرير، عن منصور، عن أبي وائل، قال: كان عبد الله يذكر الناس في كل خميس فقال له رجل: يا أبا عبد الرحمن لوددت أنك ذكرتنا كل يوم؟ قال: أما إنه يمنعني من ذلك أني أكره أن أملكم، وإني أتخولكم بالموعظة، كما كان النبي صلى الله عليه وسلم يتخولنا بها، مخافة السآمة علينا "
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی