سوال:
حضرت! مجھے آئی بی ایس (Irretable Bowl Syndrome) کی شکایت ہے، جس کی وجہ سے معدہ معمول کے مطابق سرگرمی سے معذور رہتا ہے اور گیس کی بہتات ہوتی ہے، اس لیے وضو زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکتا، کبھی کبھار تو تین سے چار دفعہ وضو کے بعد بھی نماز بمشکل ادا کی جاتی ہے، نماز کے دوران چونکہ اس طرف دھیان جانا بھی مکروہ ہے، کبھی کبھار وضو رہتا ہے، لیکن شک ہوجاتا ہے کہ وضو کہیں ٹوٹا تو نہیں۔ اس عارضے میں آنتوں کی حساسیت کی وجہ سے پیٹ سے آوازیں بھی آتی ہیں تو اس وجہ سے بھی شکوک وشبہات پیدا ہوتے ہیں۔ اس صورت میں ان عوامل کی طرف دھیان دیئے بغیر نماز جاری رکھی جائے یا توڑ دی جائے؟
مزید برآں اگر جماعت کی نماز یا انفرادی طور پر نماز میں ایسی صورت پیدا ہوتو کیا نماز دوبارہ اسی رکعت سے شروع کی جاسکتی ہے یا ازسر نو شروع کی جائے گی؟
جواب: سب سے پہلے یہ واضح رہے کہ اگر آئی بی ایس (Irritable Bowl Syndrome) کا عارضہ اس طرح شدید نوعیت کا ہے کہ كسی بھی ایک نماز کا وقت اس طرح گزرے اور اتنا وقفہ بھی نہ ملے کہ آپ وضو کرکے اس وقت کی فرض نماز پڑھ سکیں تو ایسی صورت میں آپ شرعی طور پر معذور ہیں، جس کا حکم یہ ہے کہ آپ ایک مرتبہ وضو کرنے کے بعد ایک نماز کے پورے وقت کے لیے آپ کا وضو برقرار رہے گا، اور اس خاص عذر کی وجہ سے وضو نہیں ٹوٹے گا، لہٰذا اس وقت کے اندر اندر جتنی فرض نمازیں، سنن اور نوافل، یا سجدہ تلاوت اور قرآن کی تلاوت کرنا چاہیں کرسکتے ہیں۔
اور اگر مرض اس طرح شدید نوعیت کا نہیں ہے تو ایسی صورت میں آپ شرعی طور پر معذور کے حکم میں نہیں ہیں، ایسی صورت میں وضو ٹوٹنے کی صورت میں نئے سرے سے وضو کرکے نماز پڑھنی ہوگی، البتہ محض شکوک و شبہات کی پرواہ نہ کریں، اسی طرح پیٹ سے آوازیں آنے سے بھی وضو نہیں ٹوٹتا، جب تک ہوا خارج ہونے کا سو فیصد یقین نہ ہو اس وقت تک وضو نہیں ٹوٹتا۔ شک کی صورت میں نماز کو جاری رکھا جائے، توڑنا درست نہیں ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ وضو ٹوٹ جانے کی صورت میں نماز کو اسی رکعت سے شروع کیا جائے یا از سرِ نو شروع کیا جائے تو اس سلسلے میں اصل اور بہتر تو یہ ہے کہ نماز کو از سرِ نو پڑھ لیا جائے، تاہم اگر بناء کی شرائط کی پورے طریقے سے رعایت رکھی جائے تو نماز کو اسی رکعت سے ادا کرنا بھی درست ہے، از سرِ نو شروع کرنا ضروری نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن أبي داود: (ط: رقم الحديث: 176، 127/1)
باب إذا شك في الحدث: حدثنا قتيبة بن سعيد ومحمد بن أحمد بن أبي خلف، قالا: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب وعباد بن تميم
عن عمه: شكي إلى النبي - صلى الله عليه وسلم - الرجل يجد الشيء في الصلاة حتى يخيل إليه، فقال: "لا ينفتل حتى يسمع صوتا أو يجد ريحا".
الفتاوى الهندية: (40/1، ط: دار الفكر)
(ومما يتصل بذلك أحكام المعذور) شرط ثبوت العذر ابتداء أن يستوعب استمراره وقت الصلاة كاملا وهو الأظهر كالانقطاع لا يثبت ما لم يستوعب الوقت كله حتى لو سال دمها في بعض وقت صلاة فتوضأت وصلت ثم خرج الوقت ودخل وقت صلاة أخرى وانقطع دمها فيه أعادت تلك الصلاة لعدم الاستيعاب.
الدر المختار مع رد المحتار: (307/1، ط: دار الفكر)
يجب رد عذره أو تقليله بقدر قدرته ولو بصلاته موميا، وبرده لا يبقى ذا عذر بخلاف الحائض... (قوله: وبرده لا يبقى ذا عذر) قال في البحر: ومتى قدر المعذور على رد السيلان برباط أو حشو أو كان لو جلس لا يسيل ولو قام سال وجب رده، وخرج برده عن أن يكون صاحب عذر.
الفتاوى الهندية: (93/1، ط: دار الفکر)
(الباب السادس في الحدث في الصلاة) من سبقه حدث توضأ وبنى. كذا في الكنز. والرجل والمرأة في حق حكم البناء سواء. كذا في المحيط ولا يعتد بالتي أحدث فيها ولا بد من الإعادة هكذا في الهداية والكافي والاستئناف أفضل. كذا في المتون وهذا في حق الكل عند بعض المشايخ وقيل هذا في حق المنفرد قطعا وأما الإمام والمأموم إن كانا يجدان جماعة فالاستئناف أفضل أيضا وإن كانا لا يجدان فالبناء أفضل صيانة لفضيلة الجماعة وصحح هذا في الفتاوى كذا في الجوهرة النيرة. ثم لجواز البناء شروط)»
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی