سوال:
مفتی صاحب! سب سے ادھار مانگ کر دیکھ لیا، کسی سے نہیں ملا، اگر دکان میں مال ڈالوں تو دکان بند ہوجائے گی، گھر چلانے میں مشکل ہوگی اور جو پیسے دے رہے ہیں، ان کو نفع چاہیے۔ اگر ہم کسی سے دو لاکھ روپے لے لیں اور اس کو بتادیں کہ آٹے کی ایک بوری پر پچاس روپے ملیں گے، اب مہینے میں جتنی بھی بک جائے، اس حساب آپ کو نفع ملے گا، لیکن یہ دو لاکھ روپے میں دکان میں لگاؤں گا اور نفع آٹے سے دوں گا۔ کیا شرعا یہ معاملہ جائز ہے؟
تنقیح: محترم! آپ اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ(۱) سوال میں ذکر کردہ طریقہ میں اس بات کی وضاحت نہیں ہے کہ آپ جس شخص سے رقم وصول کریں گے، وہ آُپ کو قرض کے طور پر رقم دے گا یا وہ آپ کے کاروبار میں شراکت داری اختیار کرے گا؟ (۲) اگر شراکت داری اختیار کرے گا تو آپ دونوں نقصان کس حساب سے برداشت کریں گے؟ اس کی وضاحت فرمادیں۔
اس وضاحت کے بعد ہی آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکتا ہے۔
جواب تنقیح: ادھار کے طور پر یہ ڈیل ہوگی کہ ایک سال تک آپ نے انویسٹ کرنا ہے، آپ کو اس کا پروفٹ ملتا رہے گا۔ ایک سال بعد آپ چاہیں تو واپس لے لیں، ورنہ انویسٹ ہی رہنے دیں۔
جواب: سوال میں پوچھی گئی صورت میں چونکہ یہ رقم بطور قرض دی جارہی ہے اور قرض پر مشروط نفع لینا حرام ہے، لہذا اس طرح معاملہ طے کرنے سے مکمل اجتناب کرنا ضروری ہے۔
شراکت داری کا شرعی اصول یہ ہے کہ تمام شرکاء کاروبار کے نفع و نقصان دونوں میں شریک ہوں گے۔ نقصان کی صورت میں ہر شریک اپنے اپنے سرمایہ کے تناسب سے نقصان برداشت کرے گا، یعنی جس نے جتنا فیصد سرمایہ لگایا ہے، اسے اتنے ہی فیصد نقصان اٹھانا پڑے گا، البتہ جہاں تک نفع کی تقسیم کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں شریعت کی طرف سے کوئی مخصوص تناسب طے کرنا لازم نہیں ہے٬ بلکہ فریقین اپنے سرمایہ٬ ذمہ داریوں اور کاروبار کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے باہمی رضامندی سے نفع کا کوئی بھی فیصدی تناسب طے کرسکتے ہیں، لیکن جو شریک کاروبار میں صرف سرمایہ لگا رہا ہے اور وہ کوئی کام نہیں کر رہا تو اس کے لیے اس کے سرمایہ کے تناسب سے زیادہ نفع طے کرنا جائز نہیں ہے۔
نیز اس معاملے کو درست کرنے کے لیے یہ صورت بھی اختیار کی جاسکتی ہے کہ قرض دینے والا شخص آپ کو قرض دینے کے بجائے اس رقم سے آٹا وغیرہ خرید لے اور متعین نفع کے ساتھ آپ کو نقد یا ادھار پر بیچ دے تو یہ صورت بھی جائز ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
السنن الکبری للبیھقي: (باب کل قرض جر منفعة فھو ربا، رقم الحدیث: 11092)
عن فضالة بن عبید صاحب النبي صلی ﷲ علیہ وسلم أنه قال: کل قرض جر منفعة فھو وجه من وجوہ الربا.
رد المحتار: (305/4، ط: دار الفكر)
فما كان من ربح فهو بينهما على قدر رؤوس أموالهما، وما كان من وضيعة أو تبعة فكذلك، ولا خلاف أن اشتراط الوضيعة بخلاف قدر رأس المال باطل واشتراط الربح متفاوتا عندنا صحيح فيما سيذكر.
الفتاوى الهندية: (160/3، ط: دار الفكر)
المرابحة بيع بمثل الثمن الأول وزيادة ربح
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی