سوال:
ایک شہر میں پسماندہ علاقہ سے متصل کچھ سٹیل کمپنیاں واقع ہیں، جن میں سے ایک کمپنی کو گورنمنٹ نے آرڈر بھی کیا ہوا تھا کہ وہ اپنی کمپنی دوسری جگہ ٹرانسفر کردے مگر باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا کہ حکومتی کارندوں سے ساز باز کرکے اس ٹرانسفر آرڈر کو کینسل کروا دیا گیا ہے، کمپنیوں کا زہریلا دھواں آس پاس کے گھروں میں پورے سال گھستا رہتا ہے، مگر کمپنی والے دھویں کے نقصاندہ ہونے کے علم کے باوجود اپنی کمپنی کو دوسری جگہ ٹرانسفر نہیں کرتے اور گورنمنٹ نے پولیوشن کی روک تھام کے لئے جو قوانین بنائے ہیں، اس کا بھی لحاظ نہیں کرتے اور جو کوئی اس کے خلاف آواز اٹھاتا ہے، اسے رشوت دے کر خاموش کر دیتے ہیں۔
مذکورہ تمہید کی روشنی میں درج ذیل سوالوں کا جواب مرحمت فرما کر شرعی رہبری فرمائیں:
(1) کیا کمپنی والوں کو حیثیت ہونے کے باوجود اپنی کمپنی دوسری جگہ ٹرانسفر نہیں کرنی چاہیے؟
(2) کیا جو کمپنی اپنے آس پاس کے پسماندہ علاقے کے رہنے والوں کی صحت کے ساتھ کھلواڑ کرتی ہو، اس کمپنی میں نوکری کرنا جائز ہے؟
(3) کیا اہل مدارس کو ایسی کمپنی والوں سے چندہ وصول کرنا چاہیے؟
(4) کیا ایسی کمپنی والوں سے ان کے دوست احباب رشتہ دار وغیرہ تعلقات رکھ سکتے ہیں؟
(5) کیا ایسی کمپنی والوں کے رفاہی امور سے شہر والوں کو نفع اٹھانے کی اجازت ہے؟
جواب: واضح رہے کہ جائز ملکی قوانین کا لحاظ رکھنا شرعا بھی ضروری ہے، خلاف ورزی کی صورت میں جائز ملکی قانون کی خلاف ورزی کا گناہ ہوگا، جس سے بچنا ضروری ہے، البتہ اگر کاروبار حلال چیز کا ہو تو محض ملکی قانون کی خلاف ورزی کی وجہ سے حلال کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی کو حرام نہیں کہا جائے گا، بشرطیکہ آمدنی کے حرام ہونے کی کوئی اور وجہ نہ پائی جائے۔
اس تمہید کے آپ کے سوالات کے جوابات یہ ہیں:
1) کمپنی کا خلاف قانون کام کرانے کیلئے رشوت دینا جائز نہیں ہے، اور جائز ملکی قانون پر عمل کرنا ضروری ہے۔
5،3،2) کمپنی میں جائز کام کی ملازمت کرنا اور ملنے والی اجرت لینا یا اس کے رفاہی کاموں سے فائدہ اٹھانا جائز ہے، کمپنی کے غلط طرز عمل پر اسے حکمت و مصلحت کے ساتھ سمجھاتے رہنا چاہیے۔
4) محض اس وجہ سے رشتہ داروں کا قطع تعلق کرنا جائز نہیں ہے، حکمت و مصلحت سے سمجھانے کے ساتھ ساتھ صلہ رحمی بھی جاری رکھنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الجامع لأحکام القران الکریم للجصاص: (433/2، ط: سهیل اکیدمی لاهور)
اتفقوا جمیع المتأولین لهذہ الآیة علی أن قبول الرشاء محرم، واتفقوا علی أنه من السحت التي حرمه اللّٰه تعالیٰ، والرشوة تنقسم إلیٰ وجوه: منها: الرشوة في الحکم، وذلك محرم علی الراشي والمرتشي جمیعًا، وهو الذي قال فیه النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لعن اللّٰہ الراشي والمرتشي، وهو الذي یمشي بینهما، فذلك لایخلو من أن یرشوه لیقض له بحقه أو بما لیس بحق له
صحيح مسلم: (باب النهی من المنکر عن الایمان، رقم الحدیث: 177، ط: رحمانیه)
عَنْ اَبِيْ سَعيد قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ "
بحوث قضایا فقهیة معاصرۃ: (ص: 166)
کل من یسکن دولك فانه یلتزم قولا او عملاً بانه یتبع قوانینھا وحینئذ یجب علیه اتباع احکامها۔۔۔۔۔۔۔الخ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی