سوال:
میری صاحبزادی کو یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لیے جے ایس بینک سے دو ماہ کی انٹرن شپ کرنا ضروری ہے، جبکہ جے ایس بنک ایک غیر اسلامی بینک ہے، جو اس کے عوض ماہانہ وظیفہ ادا کرے گا۔ آپ حضرات میری رہنمائی فرمائیں کہ کیا اس بینک سے ملنے والا وظیفہ یا کسی اسلامی بینک سے ملنے والا وظیفہ میرے لیے جائز ہے، اگر نہیں ہے تو پھر اس ملنے والے وظیفہ کا کیا کروں؟
جواب: واضح رہے کہ سودی بینک میں کام کرنے والے ملازمین سودی اور ناجائز معاملات میں معاون بن رہے ہوتے ہیں، اور انٹرن شپ بھی معانت کی ایک شکل ہے، شریعت میں ناجائز کام پر معاونت کرنا بھی منع ہے، اس لیے خاص طور پر سودی بینک کے ان شعبوں میں ملازمت یا انٹرن شپ کرنا جو براہ راست سودی لین دین میں مصروف عمل ہوں، جیسے: اکاؤنٹس، کیشئر، سیلز وغیرہ، اس طرح کی ملازمت/انٹرن شپ کرنا جائز نہیں ہے اور اس کے عوض ملنے والی آمدنی بھی حرام ہے، اس سے اجتناب لازم ہے۔
البتہ سودی بینک کے متبادل کے طور پر علماء کرام نے شرعی اصولوں کے مطابق غیر سودی بینکاری (Islamic Banking) کا نظام تجویز کیا ہے، لہذا جو غیر سودی بینک مستند علماء کرام کی زیرنگرانی شرعی اصولوں کے مطابق اپنے معاملات سر انجام دے رہا ہو، وہاں جائز ملازمت/انٹرن شپ کرنے کی گنجائش ہے، اور اس کے عوض ملنے والی آمدنی بھی حرام نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الایة: 278- 279)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَo فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَo
و قوله تعالی: (المائدة، الایة: 2)
وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ o
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 1598، ط: دار احیاء التراث العربی)
عن جابر، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال: هم سواء
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی