سوال:
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے گاؤں میں پرانے زمانے میں ایک قوم کے مشران نے مشترکہ طور پر کھیتوں کے ایک طرف میں تقریبا ایک مرلہ جگہ نماز کیلئے مختص کی اور بعد میں اس پر مسجد کی شکل میں پکی آبادی بھی کرلی، لیکن یہ معلوم نہیں کہ مشران نے اس جگہ کو وقف کیا تھا یا نہیں؟ اب بھی وہ مسجد کئی عشروں سے ویران ہے اور اس کی آبادی گری پڑی ہے، ہاں بعض بزرگوں سے معلوم کیا تو انہوں نے کہا کہ اس مسجد کا کوئی مستقل امام نہیں تھا اور نہ ہی اس میں مستقل طور پر اذان واقامت ہوئی ہیں، البتہ بعض اوقات کچھ لوگ نماز کے وقت جمع ہوتے تو کسی ایک شخص کو امامت کیلئے آگے کرتے، لہذا پوچھنا یہ تھا کہ کیا ایسی جگہ کو مسجد کے علاوہ کسی اور نیک مقصد کیلئے جیسے مدرسہ یا دینی کتب کی لائبریری کیلئے استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ جو جگہ ایک مرتبہ مسجدِ شرعی بن جائے، وہ قیامت تک مسجد رہتی ہے، جب تک وہ جگہ بالکل ویران نہ ہوجائے، اسے منتقل کرنا جائز نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی کو اس کی حیثیت تبدیل کرنے کا اختیار ہوتا ہے اور ویران مسجد کو منتقل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا ملبہ اور اس کا سامان دوسری جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے، لیکن اس جگہ کی حیثیت تا قیامت مسجد کی ہی رہے گی، لہذا پوچھی گئی صورت میں مسجد اگرچہ ویران ہے، لیکن اس جگہ کی حیثیت مسجد کی ہی رہے گی، اس کو تبدیل کرکے مدرسہ یا لائبریری بنانے کی اجازت نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
المحيط البرهاني: (215/6، ط: دار الكتب العلمية)
قيم المسجد إذا أراد أن يبني حوانيت في المسجد وفي فنائه لا يجوز، أما المسجد: فلأنه إذا جعل مسكناً يسقط حرمة المسجد، أما الفناء: فلأنه يتبع المسجد.
الفتاوی الهندیة: (362/2، ط: دار الفکر)
البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه والأصح أنه لا يجوز كذا في الغياثية.
و أيضاً: (458/2)
وإذا خرب المسجد واستغنى أهله وصار بحيث لا يصلى فيه عاد ملكا لواقفه أو لورثته حتى جاز لهم أن يبيعوه أو يبنوه دارا وقيل: هو مسجد أبدا وهو الأصح، كذا في خزانة المفتين في فتاوى الحجة لو صار أحد المسجدين قديما وتداعى إلى الخراب فأراد أهل السكة بيع القديم وصرفه في المسجد الجديد فإنه لا يجوز، أما على قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - فلأن المسجد وإن خرب واستغنى عنه أهله لا يعود إلى ملك الباني، وأما على قول محمد - رحمه الله تعالى -: وإن عاد بعد الاستغناء ولكن إلى ملك الباني وورثته، فلا يكون لأهل المسجد على كلا القولين ولاية البيع والفتوى على قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا يعود إلى ملك مالك أبدا، كذا في المضمرات.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی