سوال:
مفتی صاحب! میں ایک ادارہ میں ملازم ہوں، مجھے میری تنخواہ کے ساتھ ایک خدمت گار کی تنخواہ بھی ملتی ہے، میں اپنی بچت کے لئے اپنے سارے کام خود کرلیتا ہوں، میرے ماں باپ بوڑھے ہیں اور ان کے پاس کوئی خدمت کرنے والا نہیں ہے، کیا میں ان کے لیے خدمت گار رکھ سکتا ہوں اور نئی تنخواہ مقرر کرسکتا ہوں؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر ادارے کی طرف سے آپ کو اس بات کا مکمل اختیار حاصل ہو کہ چاہے آپ اس رقم کے ذریعے اپنے لیے کوئی خدمت گار رکھیں یا چاہے تو اس رقم کو اپنی دیگر ذاتی ضروریات میں خرچ کریں تو ایسی صورت میں آپ کے لیے یہ رقم اپنی دیگر ضروریات میں خرچ کرنا جائز ہوگا، اور اس رقم سے آپ اپنے والدین کی خدمت کے لیے کوئی خدمت گار بھی رکھ سکتے ہیں، جس کی تنخواہ باہمی رضامندی سے کچھ بھی طے کی جاسکتی ہے۔
لیکن اگر یہ رقم صرف خدمت گار رکھنے کے لیے ہی جاری ہوتی ہو اور ادارے کی طرف سے اسے دیگر ضروریات میں خرچ کرنے کی اجازت نہ ہو تو ایسی صورت میں آپ کے لیے یہ رقم اپنی دیگر ضروریات میں خرچ کرنا جائز نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مسند أحمد: (رقم الحدیث: 20715، ط: مؤسس قرطبة، القاھرۃ)
عن أبی حرۃ الرقاشی عن عمه قال: کنت آخذا بزمام ناقة رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه و سلم فی أوسط أیام التشریق أذود عنه الناس ، فقال: "یا أیها الناس ! ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، إنه لا یحل مال امرء إلا بطیب نفس منه".
الفتاوی الھندیة: (الباب الأول في تفسير الهبة وركنها وشرائطها، 374/4، ط: دار الفکر)
وأما حكمها فثبوت الملك للموهوب له غير لازم حتى يصح الرجوع والفسخ وعدم صحة خيار الشرط فيها
درر الحکام شرح مجلة الاحکام: (448/2، ط: المکتبة الطارق)
(المادۃ: ۸۸1) (الغصب ھو اخذ مال احد وضبطه بدون اذنه): ۔۔۔ ۳: بدون اذنه: والمراد من الاذن المنفی اعم من الاذن صراحة او دلالة او عادة یعنی یجب الا یکون اذن لصاحب المال باخذ المال صراحة او دلالة او عادة، ویستفاد من ھذا التعبیر ازالة الید المحقة واثبات الید المبطلة، لان الید لا تکون مبطلة ما لم یکن الآخذ بلا اذن المالک
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی