عنوان: قبضے سے پہلے سامان کا بیچنا منع ہے(134-No)

سوال: مفتی صاحب ! میری موبائل کی دکان ہے، بسا اوقات ایسا ہوتا ہیکہ گاہک کوئی موبائل مانگتا ہے، ہم کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ہے اور ہم سودا بهی کرلیتے ہیں، جبکہ وہ مطلوبہ موبائل ہمارے پاس نہیں ہوتا ہے، ہم دوسری دکان سے اٹهاکر دیدیتے ہیں اور اس گاہک سے اس کی قیمت لے کر جس دکان سے موبائل اٹهایا تها، اپنا نفع رکھ کر بقیہ قیمت اس دکاندار کو دیدیتے ہیں، کیا اس طرح موبائل خرید و فروخت کرنا درست ہے؟

جواب: صورت مذکورہ میں مبیعہ(مطلوبہ موبائل) پرقابض ہونے سے پہلے ہی دوسرے کے ہاتھ فروخت کردینا بیع قبل القبض ہے اور اس قسم کی بیع سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، ارشاد ہے: لا تبع ما لیس عندک.
ترجمہ: یعنی ایسی چیز نہ بیچو جو تمہارے پاس نہیں ہے۔
البتہ اس کی جائز صورت یہ ہوسکتی ہے کہ دکاندار خریدار سے وعدہ بیع کرلے، یعنی دکاندار گاہک سے یہ کہے کہ میں آپ کو اتنے میں دلوا دونگا، پهر اس کے بعد کسی سے وہ مطلوبہ موبائل خرید کر قبضہ کرنے کے بعد گاہک کو فروخت کردے، اس طرح یہ سودا درست ہوجائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن الترمذی: (525/2، ط: دار الغرب الاسلامی)
عن حكيم بن حزام قال: أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: يأتيني الرجل يسألني من البيع ما ليس عندي، أبتاع له من السوق، ثم أبيعه؟ قال: لا تبع ما ليس عندك.

الھدایۃ: (59/3، ط: دار احیاء التراث العربی)
فصل: "ومن اشترى شيئا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه"
لأنه عليه الصلاة والسلام نهى عن بيع ما لم يقبض ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 822 Dec 25, 2018
qabze se pehle / pehly saman ka bechna mana he / hey, It is forbidden to sell goods before possession

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.