سوال:
مفتی صاحب! گورنمنٹ کی طرف سے ایک افسر کو عوام کے لیے سولر شمسی بیٹری وغیرہ کا سامان مہیا کیا جائے، لیکن وہ اس سامان کوعوام پر تقسیم کرنے کی بجائے اپنے پاس رکھ لے، دوسرے افسر اطلاع ملنے پر مال ضبط کرکے اپنے قبضہ میں لے لے تو کیا اس افسر سے مذکورہ مال خریدنا جائز ہے یا نہیں؟ جبکہ خریدنے کی صورت میں نہ اس سامان کے پیسے خزانہ میں جمع ہوتے ہیں اور نہ ہی عوام کے کام میں آتے ہیں، بلکہ سرکاری افسر کی جیب میں جاتے ہیں۔
جواب: واضح رہے کہ حکومت کی طرف سے سرکاری افسران کو جو چیز جس مقصد کے لیے دی گئی ہے، اس کو اسی مقصد میں استعمال کرنا ضروری ہے، لہذا پوچھی گئی صورت میں سرکاری افسر کا متعلقہ لوگوں تک سامان پہنچانے کی بجائے اپنے پاس رکھنا اور دوسرے افسر کا سامان ضبط کرکے خلاف قانون آگے بیچ کر اس کی رقم اپنے پاس رکھنا اختیارات کے غلط استعمال، امانت میں خیانت، مستحق افراد کی حق تلفی اور مشترکہ سرکاری اموال میں بدعنوانی اور غبن جیسے شرعی مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز اور گناہ کبیرہ ہے، اس سے اجتناب لازم ہے، اگر کسی نے اس طرح کرلیا ہو تو وہ سامان اور اگر سامان واپس کرنا ممکن نہ ہو تو اس کی مالیت کے بقدر رقم متعلقہ محکمہ میں جمع کرانا شرعا ضروری ہے۔
جہاں تک ایسے سامان کی خرید و فروخت کا تعلق ہے تو چونکہ یہ سامان متعلقہ آفیسر کی ملکیت نہیں ہے، اور نہ ہی گورنمنٹ کی طرف سے اسے سامان بیچنے کا مجاز/وکیل بنایا گیا ہے، لہذا ایسے سامان کی خرید وفروخت شرعا باطل اور ناجائز ہے، نیز خریدنے والے کو جب معلوم ہو کہ یہ سامان عوام میں تقسیم کرنے کے لیے ہے تو معلوم ہونے کے بعد ایسا سامان خریدنا جائز نہیں ہے، اس سے اجتناب کرنا لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم : (آل عمران، الایة: 161)
وَمَاکَانَ لِنَبِیٍّ أَنْ یَّغُلَّ وَمَنْ یَّغْلُلْ یَأْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ... الخ
سنن أبی داؤد :(باب فِي أَرْزَاقِ الْعُمَّالِ، رقم الحدیث: 2943)
عن بریدة رضی اللّٰه تعالٰی عنه عن النبی قال: من فرزقناه رزقًا، فما أخذ بعد ذلك فهو غلول۔
بدائع الصنائع: (27/6، ط: دار الکتب العلمیة)
"إن الوکیل یتصرف بولایة مستفادۃ من الموکل فله من التصرف قدر ما ولاه
شرح المجلة: (مادة: 96، 61/1، دار الكتب العلمية بيروت)
لا یجوز لأحد أن یتصرف في ملك غیرہ بلا إذنه أو وکالة منه أو ولایة علیه، وإن فعل کان ضامنا
الفروق للقرافی: (239/3)
(الشرط الخامس) أن يكون الثمن والمبيع مملوكين للعاقد والمعقود له أو من أقيما مقامه فهذه شروط في جواز البيع دون الصحة؛ لأن بيع الفضول وشراءه محرم
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالافتاء الإخلاص،کراچی