سوال:
مفتی صاحب! مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ بہت سے غیر ملکی لوگوں نے رقم دے کر یا کسی اور طریقے سے اپنے والد، قوم اور ملک کا نام تبدیل کرکے ہمارے ملک کا شناختی کارڈ بنوالیا ہے، کیا ان کا اس طرح شناختی کارڈ بنوانا جائز ہے؟
جواب: واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں نسب تبدیل کرنے کی سخت ممانعت ہے، قرآن مجید میں الله تعالیٰ نے حقیقی والد کی طرف نسبت کرنے کا حکم دیا ہے، احادیث مبارکہ میں غیر باپ کی طرف نسبت کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہوئیں ہیں۔
اسی طرح مسلمان کے لئے جائز ملکی قوانین کا لحاظ رکھنا اور ان کے مطابق عمل کرنا بھی شرعا ضروری ہے، خلاف ورزی کی صورت میں جائز ملکی قانون کی خلاف ورزی کا گناہ ہوگا، جس سے بچنا ضروری ہے، لہذا کسی بھی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی غیر شخص کی طرف نسبت کرکے غیر قانونی طور پر شناختی کارڈ حاصل کرے، کیونکہ اس میں غیر والد کی طرف نسبت کرنے اور جائز ملکی قانون کی خلاف ورزی کرنے کا گناہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (الأحزاب، الایة: 5)
اُدۡعُوۡہُمۡ لِاٰبَآئِہِمۡ ہُوَ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰہِ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ تَعۡلَمُوۡۤا اٰبَآءَہُمۡ فَاِخۡوَانُکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ مَوَالِیۡکُمۡ ؕ وَ لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ فِیۡمَاۤ اَخۡطَاۡتُمۡ بِہٖ ۙ وَ لٰکِنۡ مَّا تَعَمَّدَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًاo
شرح النووی علی مسلم: (144/9، ط: دار احیاء التراث العربی)
قوله صلى الله عليه وسلم (ومن ادعى إلى غير أبيه أو انتمى إلى غير مواليه فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين) هذا صريح في غلظ تحريم انتماء الإنسان إلى غير أبيه أو انتماء العتيق إلى ولاء غير مواليه لما فيه من كفر النعمة وتضييع حقوق الإرث والولاء والعقل وغير ذلك مع ما فيه من قطيعة الرحم والعقوق۔
تکملة فتح الملهم: (323/3، ط: أشرفیه)
"وان المسلم یجب علیه أن یطیع أمیرہ في الأمور المباحة، فإن أمر الأمیر بفعل مباح وجبت مباشرته، وإن نهی عن أمر مباح حرم ارتکابه، ومن هنا صرح الفقهاء بأن طاعة الإمام فیما لیس بمعصیة واجبة"
رد المحتار: (166/4، ط: سعيد)
المسلمون عند شروطهم.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی