سوال:
ہم چار پشتوں سے ایک مکان میں رہ رہے ہیں۔ ہمارے پر دادا کو یہ زمین "رسالدار بدل" فریق مخالف ظفر علی کے سکڑدادا نے زبانی طور پر مالکانہ طور پر ہدیہ کر کے دے دی تھی اور قبضہ بھی دیا تھا، جس کے بعد چار پشتوں سے ہم اس مکان میں رہ رہے ہیں، کل مدت تقریباً 95 سال ہے۔ اس دوران رسالدار بدل اور اس کے اولاد میں سے کسی نے بھی اس زمین کے بارے میں ہم سے دعوی یا کوئی جھگڑا نہیں کیا، یعنی سب یہ بات جانتے تھے کہ رسالدار بدل نے یہ زمین گل بیگ کو ہدیہ کرکے دے دی ہے اور اسی وقت گل بیگ کے بیٹے تاج محمد کا اس مکان پر قبضہ بھی رہا ہے جو آج تک گل بیگ کے اولادوں کے قبضے میں ہے اور وہ اس میں رہائش پذیر بھی ہیں، پھر 2005 میں سرکاری سطح پر کتونی رجسٹر کروائی گئی، چونکہ اس زمین کے کاغذات کا کچھ پتا نہیں ہے، اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ظفر بن عبدالله بن رسالدار بدل نے اس زمین کی کتونی اپنے نام رجسٹر کروائی۔
واضح رہے کہ اس دوران نہ ہی کاغذات کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے اور نہ ہی کوئی تحقیق کی جاتی ہے، بلکہ جو بھی پیسہ دے دیتا ہے، اس کے نام زمین رجسٹر کردی جاتی ہے۔ اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فریق دوئم ظفرعلی بن عبداللہ بن رسالدار بدل نے اس زمین کی کتونی اپنے نام پر رجسٹر کروائی اور اب وہ اس زمین کے مالک ہونے کا مدعی ہے، جبکہ زمین میں پچانوے 95 سال سے ہم (اصغر مع بچوں بھائیوں کے والد دادا) رہائش پذیر ہیں اور اس بات پر اہل محلہ بھی گواہ ہیں کہ یہ زمین رسالدار بدل کی طرف سے گل بیگ ہمارے پردادا (اصغر بن غلام محمد بن گل بیگ) کو ہدیہ دے کر قبضہ بھی دیا گیا تھا۔ مہربانی فرما کر از روئے شرع اس زمین کے مالکان کو متعین فرمائیں۔
جواب: اگر واقعتاً آپ کے پردادا کو فریق مخالف کے سکڑدادا نے اپنی صحت کے زمانہ میں مالکانہ قبضہ و تصرف کے ساتھ زمین ہدیہ کی تھی تو یہ زمین آپ کے پردادا کی ملکیت شمار ہوگی جو ان کے ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی اور فریق مخالف کے سکڑپوتوں کا اس پر وراثت کا دعوی کرنا جائز نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الهندية: (374/4، ط: دار الفکر)
ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض وأن يكون الموهوب مقسوما إذا كان مما يحتمل القسمة وأن يكون الموهوب متميزا عن غير الموهوب.
و فیھا ایضاََ: (378/4، ط: دار الفکر)
"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".
شرح المجلة: (المادۃ: 837)
تنعقد الہبة بالإیجاب والقبول، وتتم بالقبض الکامل؛ لأنها من التبرعات، والتبرع لا یتم إلا بالقبض".
درر الحكام شرح مجلة الاحكام: (المادة: 879، 487/2 ط: دار الجیل)
لو وهب أحد جميع امواله في حال صحته لأحدِ ورثتِه وسلّمه إياها وتوفّى بعد ذالك فليس لسائر الورثة المداخلة في الهبة المذکورۃ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی