سوال:
بنات کے مدرسہ میں مرد اساتذہ کے لئے بالغہ لڑکیوں کو (پردہ کے ساتھ/ بغیر پردہ کے) پڑھانا کیسا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ نامحرم استاذ سے بالغ یا بلوغت کے قریب لڑکیوں کا پردہ کرنا فرض ہے، لہذا لڑکیوں کا بے پردہ ہو کر استاذ سے پڑھنا حرام کام ہے۔
بہتر یہی ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے نیک سیرت استانیوں کا انتظام کیا جائے، لیکن اگر ایسی استانیاں میسر نہ ہوں تو ایسی صورت میں کسی با اعتماد اور نیک سیرت مرد کو استاذ رکھنے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ وہ پردے کی آڑھ میں رہ کر پڑھائے اور ہر قسم کے خلاف شرعی امور سے اجتناب کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النور، الایة: 30- 31)
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَo وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ.....الخ
الأشباه و النظائر: (ص: 78، ط: دار الكتب العلمية)
درء المفاسد أولى من جلب المصالح: فإذا تعارضت مفسدة ومصلحة قدم دفع المفسدة غالبا؛ لأن اعتناء الشرع بالمنهيات أشد من اعتنائه بالمأمورات، ولذا قال عليه السلام {إذا أمرتكم بشيء فأتوا منه ما استطعتم، وإذا نهيتكم عن شيء فاجتنبوه} ، وروى في الكشف حديثا {لترك ذرة مما نهى الله عنه أفضل، من عبادة الثقلين} ومن ثم جاز ترك الواجب دفعا للمشقة، ولم يسامح في الإقدام على المنهيات. خصوصا الكبائر.
امداد الاحکام: (405/4، ط: مکتبه دار العلوم کراتشي)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی