سوال:
عبادات، ادعیہ ماثورہ اور اذکار کے جو فضائل قرآن و حدیث میں آئے ہیں، وہ ان کو بجا لانے کے بعد کیوں حاصل نہیں ہوتے؟ مفصل جواب دے کر تشنگی دور فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ ہر دینی عمل (اذکار، ادعیہ ماثورہ اور دیگر تمام عبادات) خواہ وہ فرض ہو یا نفل ہو کے دو قسم کے نتائج اور اثرات ہیں، ایک دنیوی اور دوسرے اخروی۔ جہاں تک اخروی (آخرت ) کے اثر کا تعلق ہے تو اس سے مراد ان اعمال کا ثواب ہے، جس کا ظہور ثواب یا عذاب کی شکل میں آخرت میں ہی ہوگا، دنیا میں اس کے ظاہر ہونے کا کوئی راستہ نہیں ہے، البتہ جو دنیوی اثرات ہیں تو وہ دنیا میں ظاہر ہوجاتے ہیں، مثلاً: نماز کی ایک فضیلت اور دنیوی اثر قرآن کریم میں مذکور ہے کہ نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ". [العنكبوت: 45]
ترجمہ: اور نماز قائم کرو، بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔
اور روزے کا یہ اثر ذکر کیا گیا ہے کہ اس سے انسان کے اندر تقویٰ پیدا ہوتا ہے، "يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ". [البقرة: 183]
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کردیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو۔
اسی طرح زکوٰۃ کی یہ فضیلت آئی ہے کہ اس سے مال پاک ہوتا ہے، جس سے مال میں برکت آجاتی ہے۔
مقبول حج کے بعد زندگی کا بدل جانا حج کا ایک اہم اور عظیم فائدہ اور فضیلت ہے، جس کا مشاہدہ بکثرت ہوتا ہے۔
لیکن یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ یہ دونوں قسم کے اثرات چونکہ دینی ہیں، اس لیے دین اسلام نے ان اثرات کو خاص قسم کی شرائط سے مشروط رکھا ہے، لہٰذا ہر دینی عمل کی اپنی شرائط اور خاص آداب ہیں، اگر ان آداب اور شرائط کی مکمل رعایت رکھتے ہوئے اس عمل کو اسی طرح ہی ادا کیا جائے جس طرح قرآن وحدیث میں اس کا حکم دیا گیا ہے تو اس کے وہ اثرات ظاہر ہوتے ہیں، بصورت دیگر ان اثرات کے ظاہر ہونے کی کوئی ضمانت (گارنٹی) نہیں ہے، جیسا کہ مذکورہ آیت کے ذیل میں حضرت مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ اپنی شہرۂ آفاق تفسیر "معارف القرآن" میں لکھتے ہیں:
"متعدد مستند احادیث کی رُو سے (اس آیت کا) یہ مطلب ہے کہ اقامتِ صلوٰۃ میں بالخاصہ تاثیر ہے کہ جو اس کو ادا کرتا ہے، اس سے گناہ چھوٹ جاتے ہیں، بشرطیکہ صرف نماز پڑھنا نہ ہو، بلکہ الفاظِ قرآن کے مطابق اقامتِ صلوٰۃ ہو۔۔۔ اقامتِ صلوٰۃ کا مفہوم یہ ہوا کہ نماز کے تمام ظاہری اور باطنی آداب اُس طرح ادا کرے جس طرح رسول اللہ ﷺ نے عملی طور پر ادا کرکے بتلایا۔۔۔۔ جو شخص نماز پڑھنے کے باوجود گناہوں سے نہ بچا تو سمجھ لے کہ اس کی نماز میں ہی قصور ہے"۔
یہی بات حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے "خطبات حکیم الامت" میں بھی تفصیلاً مذکور ہے۔ (دیکھیے: خطبات حکیم الامت: 386/1)
اسی مضمون کی ایک مشہور حدیث بھی ہے، جس کا ترجمہ ذیل میں نقل کیا جاتا ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ایک آدمی کا ذکر کیا: ’’جو طویل سفر کرتا ہے، جس کے بال پراگندہ اور جسم غبار آلود ہے، (دعا کے لیے) آسمان کی طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر کہتا ہے: اے میرے رب! اے میرے رب! جبکہ اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا لباس حرام اور اس کو غذا حرام کی ملی ہے تو اس کی دعا کہاں سے قبول ہو گی!‘‘ (صحىح مسلم، حديث نمبر: 2346)
مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ اگر کہیں دعاؤں، اذکار اور عبادات کے فضائل ظاہر نہ ہورہے ہوں تو وہ یقیناً عمل کرنے والے کے عمل میں کسی کمزوری اور کمی کی وجہ سے ہے، اس لیے اپنے عمل کی اصلاح کرنی چاہیے اور ہر ممکن کوشش کرکے اسے درست طریقے سے ادا کرنا چاہیے، البتہ مایوس نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین کامل ہو کہ وہ مطلوبہ فوائد عطا فرمائیں گے یا دعا قبول فرمائیں گے، کیونکہ بعض اوقات کسی چیز کا فائدہ اللہ تعالی کی کسی حکمت یا اس کی طرف سے انسان کی آزمائش کے طور پر دیر سے ظاہر ہوتا ہے یا دنیا میں ظاہر ہی نہیں ہوتا اور آخرت کا ذخیرہ بن جاتا ہے، چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام نے جب فرعون اور اس کی قوم کو بد دعا دی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا تو فورا قبول کرلی، لیکن دعا کی قبولیت کا اثر بعض مفسرین کے قول کے مطابق چالیس سال بعد ظاہر ہوا۔ (دیکھیے: معارف القرآن: 563/4) لہذا تاخیر پر صبر کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح مسلم: (رقم الحديث: 2346)
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " أيها الناس، إن الله طيب لا يقبل إلا طيبا، وإن الله أمر المؤمنين بما أمر به المرسلين، فقال: {يا أيها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحا، إني بما تعملون عليم} [المؤمنون: 51] وقال: {يا أيها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم} [البقرة: 172] ثم ذكر الرجل يطيل السفر أشعث أغبر، يمد يديه إلى السماء، يا رب، يا رب، ومطعمه حرام، ومشربه حرام، وملبسه حرام، وغذي بالحرام، فأنى يستجاب لذلك؟".
تفسير البغوي: (432/2، ط: دار إحياء التراث العربي)
قال الله تعالى لموسى وهارون: قد أجيبت دعوتكما، إنما نسب إليهما، والدعاء كان من موسى لأنه روي أن موسى كان يدعو وهارون يؤمن، والتأمين دعاء . وفي بعض القصص: كان بين دعاء موسى وإجابته أربعون سنة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی