سوال:
کیا زکوٰۃ کی رقم کسی کی اعلیٰ تعلیم کے لیے استعمال کرنا درست ہے، جبکہ بچوں کے والدین امیر نہ ہوں، اور زکوٰۃ وصول کرنے کے قابل نہ ہوں؟ رہنمائی فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ براہ راست کسی کے تعلیمی اخراجات ادا کرنے سے زکوة ادا نہیں ہوتی، بلکہ زکوة کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ مستحق کو زکوة کی رقم کا مالک بنایا جائے، پھر چاہے وہ اپنی مرضی سے اسے اپنے تعلیمی اخراجات میں صرف کرے یا کسی اور ضرورت میں ان کو خرچ کرے، لہذا پوچھی گئی صورت میں اگر اعلی تعلیم حاصل کرنے والا بچہ بالغ ہے اور مستحق زکوة بھی ہے تو آپ اپنی زکوة اس کو دے سکتے ہیں، لیکن اگر بچہ نابالغ ہے تو اس صورت میں کسی ایسے مستحق زکوة شخص ( والد، والدہ یا رشتہ دار) کو زکوة کا مالک بنادیں جو زکوة کی رقم اپنی ملکیت میں لینے کے بعد اپنی رضا اور خوشی سے مذکورہ بچے کی تعلیم پر خرچ کردے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الھندیة: (170/1، ط: دار الفکر)
هي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله تعالى هذا في الشرع كذا في التبيين
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی