سوال:
کسی شخص نے میرے بھائی كے کاروبار میں پیسے انویسٹ کئے اور نفع نقصان میں شامل ہونا طے پایا۔ کاروبار میں کرونا کی وجہ سے کافی نقصان ہوگیا، اس دوران بھی منافع کی رقم لیتا رہا، اب نقصان بھرنے کو تیار نہیں ہے، کیا جو نفع وہ لے رہا ہے یا لے لیا ہے، یہ سود ہے؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر واقعی کاروبار میں کسی شریک کی غفلت و کوتاہی کے بغیر نقصان ہوا ہو تو تمام شرکاء اپنے اپنے سرمایہ کے بقدر نقصان برداشت کریں گے۔ آپ کے بھائی پر شرعا لازم نہیں ہے کہ نقصان کی صورت میں بھی اپنے شریک (Partner) کو نفع دیتا رہے، تاہم اگر وہ اپنی خوش دلی سے کچھ رقم دینا چاہے تو وہ ان کی صوابدید پر ہے، لہذا ایسی صورت میں پیسے دینے والے (investor) کا کاروباری نقصان برداشت کرنے سے انکار کرنا اور نفع کا مطالبہ کرنا شرعا جائز نہیں ہے، نیز اس صورت میں نفع کے نام پر لی جانے والی رقم بھی اس کیلئے جائز نہیں ہوگی، ناحق طریقے سے لی گئی رقم اصل مالک کو واپس کرنا شرعا لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
التفسير المظهري: (209/1، ط: مکتبة الرشيدیة)
ولا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل كالدعوى الزور والشهادة بالزور او الحلف بعد إنكار الحق او الغصب والنهب والسرقة والخيانة او القمار واجرة المغني ومهر البغي وحلوان الكاهن وعسب التيس والعقود الفاسدة او الرشوة وغير ذلك من الوجوه التى لا يبیحه الشرع.
مسند أحمد: (رقم الحدیث: 20715، ط: مؤسس قرطبة، القاھرۃ)
عن أبی حمزۃ الرقاشی عن عمه قال: کنت آخذا بزمام ناقة رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه و سلم فی أوسط أیام التشریق أذود عنه الناس ، فقال: "یا أیها الناس ! ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، إنه لا یحل مال امرء إلا بطیب نفس منه"
الفتاوی الهندیة: (الفصل الثاني في شرط الربح و الوضيعة و هلاك المال، 320/2، ط: رشيدية)
لو كان المال منهما في شركة العنان والعمل على أحدهما إن شرطا الربح على قدر رءوس أموالهما جاز ويكون ربحه له ووضيعته عليه... والوضيعة أبدا على قدر رءوس أموالهما
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی