عنوان: حضرت نوح علیہ السلام کی عمر (13461-No)

سوال: احادیث کی روشنی میں اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ حضرت نوح علیہ السلام کی کل عمر کتنی تھی اور اپنی امت کو کتنے عرصہ تک تبلیغ کرتے رہے؟

جواب: حضرت نوح علیہ السلام کی عمر سے متعلق مفسرین کرام کے مختلف اقوال ہیں، چونکہ قرآن وحدیث میں حضرت نوح علیہ السلام کی عمرکے بارے میں کوئی واضح بات نہیں ہے، اس لیے ان اقوال میں سے کسی بھی قول کو یقینی نہیں کہا جاسکتا ہے۔
ذیل میں اس حوالے سے اقوال ذکرکیے جاتے ہیں:
۱۔تفسیر ابن ابی حاتم (3041/9)میں ہے کہ امام قتادہ فرماتے ہیں:حضرت نوح (علیہ السلام) کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی۔ تین سو سال اپنی قوم کو اللہ کی طرف دعوت دینے سے پہلے کے ہیں اور تین سو سال تک اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلایا اور ساڑے تین سو سال طوفان کے بعد زندہ رہے۔
علامہ ابن کثیر نے اس قول کو ’’غریب‘‘ قرار دیا ہے۔
۲۔ كعب احبار كے نزديك حضرت نوح علیہ السلام کی عمر ایک ہزار بيس سال تھی۔
امام ابن ابی حاتم نے عطاء بن یسار کے حوالے سے کعب احبار کا قول نقل کیا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم میں ساڑھے نو سال تک رہے اور اس کے (طوفان کے بعد) ستر سال زندہ رہے۔
۳۔عون بن شداد کاقول ہے کہ سولہ سو پچاس سال تھی۔
عون بن شداد فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف نبی بناکر بھیجا تو ان کی عمر ساڑھے تین سو سال تھی، چنانچہ انہوں نے اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال تک اللہ کی طرف بلایا اور (طوفان ) کے بعد ساڑھے تین سوسال زندہ رہے۔
علامہ ابن کثیر نے اس قول کو بھی ’’غریب‘‘قرار دیا ہے۔
۴۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کاقول ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی عمر ایک ہزار پچاس سال تھی۔
امام ثعلبی نےحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کو چالیس سال کی عمر میں مبعوث کیا گیا اور وہ اپنی قوم میں ساڑھے نو سو سال رہ کر لوگوں کو اللہ تعالی کی طرف بلاتے رہے اور طوفان کے بعد بھی ساٹھ سال زندہ رہے، یہاں تک کہ لوگ زیادہ ہوگئے اور پھیل گئے۔
علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ’’الدرالمنثور‘‘میں اس قول کو امام ابن ابی شیبہ ،عبد بن حمید ،ابن المنذر ،ابن ابی حاتم ،ابوالشیخ اورامام حاکم کے حوالے سے نقل کیا ہے۔
علامہ ابن کثیر نے اس قول کو اقرب قرار دیا ہے۔
۵۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک قول یہ بھی مروی ہے : آپ کو جب معبوث کیا گیا تو آپ کی عمر اڑھائی سو سال تھی اور آپ اپنی قوم میں نو سو پچاس سال تک رہے اور طوفان کے بعد دوسو سال تک رہے۔
۶۔وہب بن منبہ کا قول ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی عمر چودہ سوسال تھی۔
۷۔حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی عمر سترہ سو سال تھی۔
علامہ سیوطی نے’’الدرالمنثور‘‘میں امام عبد بن حمید کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام کی بعثت سے پہلے اور بعد میں کل عمر سترہ سو سال تھی۔
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے مختلف اقوال ذکر کرنے کے بعد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی قول "حضرت نوح علیہ السلام کی عمر ایک ہزار پچاس سال تھی" کو راجح قرار دیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

تفسیر ابن أبي حاتم: (3041/9، الرقم: 17196، ط: مكتبة نزار مصطفى الباز)
قال قتادة ‌لبث ‌فيهم ‌قبل ‌أن ‌يدعوهم ثلاثمائة سنة ودعاهم ثلاثمائة سنة ولبث بعد الطوفان ثلاثمائة وخمسين سنة.
قال ابن كثير:في ’’تفسيره‘‘(268/6) هذا قول غريب.

و أیضاً: (3041/9، الرقم: 17197)
عن عطاء بن يسار، عن كعب الأحبار في قول الله:فلبث فيهم ألف سنة إلا خمسين عاما قال: عاش بعد ذلك سبعين عاما.

و أیضاً: (3043/9، الرقم:17198)
حدثنا علي بن الحسين، ثنا نصر بن علي، ثنا نوح بن قيس، ثنا عون ابن شداد قال: إن الله تبارك وتعالى أرسل نوحا إلى قومه وهو ابن خمسين وثلاثمائة سنة فدعاهم ألف سنة إلا خمسين عاما، ثم عاش بعد ذلك خمسين وثلاثمائة سنة.
وقال ابن کثیر في ’’تفسيره‘‘(268/6) وهذا أيضا غريب، رواه ابن أبي حاتم، وابن جرير.

تفسیر الثعلبي: (26/21، ط: دار التفسير)
قال ابن عباس: بعث نوح عليه السلام لأربعين سنة وبقي في قومه يدعوهم ألف سنة إلا خمسين عامًا وعاش عليه السلام بعد الطوفان ستين سنة حتى كثر الناس وفشوا .
عزاه السيوطي في "الدر المنثور" (6/455) لكل من ابن أبي شيبة ، وعبد بن حميد ، وابن المنذر ، وابن أبي حاتم ، وأبو الشيخ ، والحاكم وصححه وابن مردويه.
وقال ابن کثیر في ’’تفسيره‘‘(268/6) بعد أن استغرب الأقوال السابقة :وقول ابن عباس أقرب.

تفسير القرطبي: (332/13، ط: دار الكتب المصرية)
واختلف في مبلغ عمره. فقيل: مبلغ عمره ما ذكره الله تعالى في كتابه. قال قتادة: لبث فيهم قبل أن يدعوهم ثلاثمائة سنة ودعاهم ثلاثمائة سنة، ولبث بعد الطوفان ثلاثمائة وخمسين سنة. وقال ابن عباس: بعث نوح لأربعين سنة، ولبث في قومه ‌ألف ‌سنة إلا خمسين عاما، وعاش بعد الغرق ستين سنة حتى كثر الناس وفشوا. وعنه أيضا: أنه بعث وهو ابن ميتين وخمسين سنة، ولبث فيهم ‌ألف ‌سنة إلا خمسين، وعاش بعد الطوفان مائتي سنة. وقال وهب: عمر نوح ألفا وأربعمائة سنة. وقال كعب الأحبار: لبث نوح في قومه ‌ألف ‌سنة إلا خمسين عاما، وعاش بعد الطوفان سبعين عاما فكان مبلغ عمره ‌ألف ‌سنة وعشرين عاما. وقال عون بن شداد: بعث نوح وهو ابن خمسين وثلاثمائة سنة، ولبث في قومه ‌ألف ‌سنة إلا خمسين عاما، وعاش بعد الطوفان ثلاثمائة سنة وخمسين سنة، فكان مبلغ عمره ألف سنة وستمائة سنة وخمسين سنة ونحوه عن الحسن.

الدر المنثور: (456/6، ط: دار الفكر)
وأخرج عبد بن حميد عن عكرمة رضي الله عنه قال: كان عمر نوح عليه السلام قبل أن يبعث إلى قومه وبعدما بعث الفا وسبعمائة سنة.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 601 Dec 20, 2023
hazrat nooh alihe salam ke umar

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Beliefs

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.