عنوان: حشرات الارض کے اجزاء کو بطور دوا استعمال کرنے کا حکم (13472-No)

سوال: مفتی صاحب! میرا سوال یہ ہے کہ ایسے حضرات جو کمزور ہوں اور اپنی بیوی کے پاس جانے کے قابل نہ ہوں، ان کے لیے جو نسخہ ہم تیار کرتے ہیں، اس میں ہم برابر وزن میں بارہ چیزیں استعمال کرتے ہیں، ان میں سے ایک جند پلستر(لدھڑ کا خصیا) بھی ہے، جس کے بغیر نسخہ مکمل کام نہیں کرتا تو کیا یہ جائز ہے؟ اور اگر اس کی مقدار ڈبل کردیں تو اس کا رزلٹ زیادہ بہتر ہو جاتا ہے۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمادیں۔

جواب: واضح رہے کہ حشرات الارض کے اجزاء کو علاج کے لیے کھانے والی غذا یا دوا میں استعمال کرنا شرعاً ناجائز ہے، البتہ اگر اُس مرض کا علاج کسی بھی طب میں کسی جائز چیز سے ممکن نہ ہو اور کوئی پرہیز گار مسلمان ماہر طبیب اس بیماری کے علاج میں حشرات الارض کے اجزاء کو تجویز کرے تو ایسی مجبوری کی صورت میں حشرات الارض کے اجزاء سے علاج کرنے کی گنجائش ہے۔
پوچھی گئی صورت میں قوت باہ کی بحالی کے لیے عام حالات کے اندر "جند بدستر" کے بعض اجزاء کا بطورِ دوا خوردنی استعمال شرعاً ناجائز ہے، نیز فن طب کے ماہر تجربہ کار مسلمان اطباء کرام سے اس بارے میں تحقیق کی گئی تو ان کی رائے بھی یہ تھی کہ حلال اجزاء سے قوت باہ کا علاج ممکن ہے، لہذا حلال کے ہوتے ہوئے حرام اجزاء سے علاج کرنا جائز نہیں ہے۔
ہاں! اگر کسی بھی طب میں اس مرض کا علاج حلال اشیاء سے ممکن نہ ہو یا حلال اجزاء سے علاج یقینی نہ ہو اور فن طب کے دیانت دار ماہر طبیب اس کو نسخے میں تجویز کر دیں تو اس کے استعمال کی گنجائش ہے۔
لہذا اس بیماری کے علاج میں دیگر ماہرین طب سے رجوع کر کے ان کی تجویز کے مطابق حلال اشیاء سے علاج کو اختیار کرنا چاہیے۔
اگر حلال اجزاء استعمال کے باوجود افاقہ نہ ہو اور مسلمان دیانت دار ماہر اطباء بیماری کی نوعیت کے پیش نظر "جند بدستر" کے اجزاء کو ہی بطورِ علاج تجویز کریں، تو پھر اس کی بقدر ضرورت گنجائش ہو گی، البتہ محض لذت میں اضافے کے حصول کے لیے اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

رد المحتار: (كتاب البيوع، باب المتفرقات من أبوابها، مطلب في التداوي بالمحرم، 228/5، ط: دار الفكر)

مطلب في التداوي بالمحرم:
"(قوله: ورده في البدائع إلخ) قدمنا في البيع الفاسد عند قوله ولبن امرأة أن صاحب الخانية والنهاية اختارا جوازه إن علم أن فيه شفاء ولم يجد دواء غيره قال في النهاية: وفي التهذيب يجوز للعليل شرب البول والدم والميتة للتداوي إذا أخبره طبيب مسلم أن فيه شفاءه ولم يجد من المباح ما يقوم مقامه، وإن قال الطبيب يتعجل شفاؤك به فيه وجهان، وهل يجوز شرب العليل من الخمر للتداوي فيه وجهان، وكذا ذكره الإمام التمرتاشي وكذا في الذخيرة وما قيل إن الاستشفاء بالحرام حرام غير مجرى على إطلاقه وأن الاستشفاء بالحرام إنما لا يجوز إذا لم يعلم أن فيه شفاء أما إن علم وليس له دواء غيره يجوز ومعنى قول ابن مسعود - رضي الله عنه - لم يجعل شفاؤكم فيما حرم عليكم يحتمل أن يكون قال ذلك في داء عرف له دواء غير المحرم لأنه حينئذ يستغني بالحلال عن الحرام ويجوز أن يقال تنكشف الحرمة عند الحاجة فلا يكون الشفاء بالحرام وإنما يكون بالحلال اه نور العين من آخر الفصل التاسع والأربعين".

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 440 Dec 25, 2023
hashratul arz ke ajza ko bator dawa istemal karne ka hukum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Medical Treatment

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.