resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: ماں کی جان بچانے کے لیے حمل ضائع کرنے کا حکم (24826-No)

سوال: آج اسپتال میں ایک کیس آیا۔ ایک خاتون کے پیٹ میں بچے (فِیٹس) کی رپورٹ میں خرابی (anomaly) نکلی۔ مطلب یہ کہ بچے کy دونوں گردے صحیح کام نہیں کر رہے تھے اور ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ ایسا بچہ ماں کے پیٹ میں زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتا، اور اگر وہ مر جائے اور دیر تک پیٹ میں رہے تو ماں کی جان کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹرز نے یہ بھی کہا کہ یا تو بچہ پیٹ میں ہی مر جائے گا (IUD: Intrauterine Death)، اور اگر زندہ پیدا بھی ہو جائے تو وہ پیدائش کے بعد زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکے گا۔ اس لیے ڈاکٹرز نے مشورہ دیا کہ حمل ختم کروا دیا جائے۔ کیا اس صورت میں ڈاکٹرز کا فیصلہ شرعی لحاظ سے درست ہے؟

جواب: واضح رہے کہ حمل میں روح پڑنے کے بعد اس کو ضائع کرنا شرعاً جائز نہیں ہے اور حمل میں روح پڑنے کی مدت چار ماہ (یعنی 120 دن) ہے، اس لیے اگر مذکورہ مدت کے بعد معلوم ہو کہ بچہ معذور ہے اور وہ اپنی پیدائش کے بعد معذوری یا بیماری کی زندگی گزار سکتا ہے تو محض معذوری کے اندیشے کی وجہ سے حمل ضائع کرنا جائز نہیں ہے۔
البتہ اگر ماہر دیانت دار ڈاکٹروں کی تحقیق و تفتیش کے بعد غالب گمان یہ ہو کہ بچہ حالت حمل میں ہی ضائع ہو جائے گا یا پیدائش کے بعد زندہ نہیں بچے گا اور آپریشن نہ ہونے کی صورت میں ماں کی جان کی ہلاکت کا بھی غالب گمان ہو تو ماں کی جان بچانے کے لیے آپریشن کی گنجائش ہوگی، لیکن اس صورت میں بھی بچے کی جان بچانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:

الفتاوی الهندية: (356/5، ط: دار الفکر)
’’رجل عزل عن امرأته بغير إذنها لما يخاف من الولد السوء في هذا الزمان فظاهر جواب الكتاب أن لايسعه وذكر هنا يسعه لسوء هذا الزمان كذا في الكبرى. وله منع امرأته من العزل كذا في الوجيز للكردري. وإن أسقطت بعد ما استبان خلقه وجبت الغرة كذا في فتاوى قاضي خان. العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه كالشعر والظفر ونحوهما لا يجوز وإن كان غير مستبين الخلق يجوز ... وفي اليتيمة سألت علي بن أحمد عن إسقاط الولد قبل أن يصور فقال أما في الحرة فلا يجوز قولا واحدا وأما في الأمة فقد اختلفوا فيه والصحيح هو المنع كذا في التتارخانية. و لايجوز للمرضعة دفع لبنها للتداوي إن أضر بالصبي كذا في القنية. امرأة مرضعة ظهر بها حبل وانقطع لبنها وتخاف على ولدها الهلاك وليس لأبي هذا الولد سعة حتى يستأجر الظئر يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام نطفة أو مضغة أو علقة لم يخلق له عضو وخلقه لا يستبين إلا بعد مائة وعشرين يوما أربعون نطفة وأربعون علقة وأربعون مضغة كذا في خزانة المفتين. وهكذا في فتاوى قاضي خان. والله أعلم‘‘.

کذا فی تبویب فتاوی دارالعلوم کراچی: (فتوی نمبر: 45/1617)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Medical Treatment