سوال:
ہم تصویر دکھا کر آرڈر لے کر خریدار کو بتا دیں کہ ہم ریسیلر ہیں، اور وہ چیز براہ راست کمپنی سے خریدار کے گھر چلی جائے تو کیا کوئی ایسی صورت ہے جس میں ہم چیز قبضے میں لیے بغیر آگے بیچ سکیں؟
تنقیح: آپ کمپنی کے نمائندے کے طور پر ان کی اجازت سے کام کرتے ہیں، یعنی آپ کمپنی کی چیز لوگوں کو بیچتے ہیں یا پہلے خود کمپنی سے اپنے لیے خریدتے ہیں اور پھر لوگوں کو بیچتے ہیں؟
تفصیلی صورتحال سے آگاہ کردیں، اس کے بعد ان شاءاللہ جواب دیا جائے گا۔
جواب تنقیح: ہم دونوں صورتوں میں کام کرتے ہیں:
1) صورت یہ ہے کہ Mrkz app وہ ہمیں کہتے ہیں ہم آپ کو چیز اتنے کی دیں گے، آپ اپنی مرضی سے پرافٹ رکھ کے ہمیں بتاو، ہم coustomer کے گھر پہنچا کر آپ کا پرافٹ آپ کو snd کر دیں گے۔
2) صورت میں ہم coutomer کو چیز کی pic دکھاتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ہم آپ کو یہ چیز مارکیٹ سے لے کر بھیج دیں گے، ہم reseller ہیں، ہم مارکیٹ سے paymnt کر کے وہ چیز online لیتے ہیں اور مارکیٹ والوں کو coustomer کا ایڈریس دے دیتے ہیں، تاکہ خرچہ ڈبل نہ پڑے، coustomer وہ چیز وصول کر کے ہمیں paymnt بھیج دیتا ہے، کیا ان طریقوں سے کام کرنا ٹھیک ہے؟
جواب: سوال کی تنقیح میں ذکر کردہ پہلی صورت میں چونکہ آپ کمپنی کی چیز کچھ معاوضہ کے بدلے بکواتے ہیں، اس لیے اس صورت میں آپ کی حیثیت کمپنی اور گاہک کے درمیان کمیشن ایجنٹ کی ہوگی اور آپ کو کمپنی کی طرف سے جو نفع ملتا ہے، وہ آپ کے اس کام کی اجرت اور کمیشن ہے، لہذا اگر کمیشن باقاعدہ متعین اور معلوم ہو تو اس کے عوض میں آپ کا یہ کام کرنا شرعاً جائز ہوگا اور اس صورت میں آپ کا چیز پر قبضہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ جبکہ دوسری صورت میں آپ چیز پہلے خود اپنے لیے خریدتے ہیں اور پھر اسے آگے فروخت کرتے ہیں، اس لیے اس صورت میں آپ کا چیز پر قبضہ کرنا ضروری ہے، لہذا گاہک کے ساتھ حتمی بیع کا معاملہ کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ یا تو آپ خود اس پر قبضہ کرلیں یا آپ کی طرف سے آپ کا کوئی وکیل قبضہ کرلے، مثلاً آپ شپنگ کمپنی (Shipping or Logistic company) کو اپنی طرف سے قبضہ کا وکیل بنادیں اور وہ پہلے آپ کی طرف سے قبضہ کرلے، اس کے بعد گاہک کو دے دے، بصورت دیگر یہ معاملہ درست نہیں ہوگا، البتہ مال پر حسی قبضہ (physical possession) شرعاً ضروری نہیں ہے، بلکہ اگر حسی قبضہ ممکن نہ ہو تو معنوی اور حکمی طور پر قبضہ (Constructive Possession) میں لینا بھی کافی ہے۔
حکمی قبضہ کا مطلب یہ ہے کہ خریدی ہوئی چیز کی باقاعدہ نشاندہی کرلی جائے، اور بیچنے والے کی طرف سے خریدار کو اس میں مالکانہ تصرفات کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہوجائے اور کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے۔
نیز جس سے مال خریدا جائے، اسی کو خریدار کی طرف سے قبضہ کا وکیل بنانا درست نہیں ہے، اس کے علاوہ کسی تیسرے شخص کو وکیل بنایا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (63/6، ط: دار الفکر)
و في الدلال و السمسار يجب أجر المثل، و ما تواضعوا عليه....و في الحاوي: "سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: "أرجو أنه لا بأس به و إن كان في الأصل فاسدا؛ لكثرة التعامل، و كثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه.
بدائع الصنائع: (180/5، ط: رشیدیة)
(ومنها) القبض في بيع المشتري المنقول فلا يصح بيعه قبل القبض؛ لما روي أن النبي - صلى الله عليه وسلم - «نهى عن بيع ما لم يقبض» ، والنهي يوجب فساد المنهي؛ ولأنه بيع فيه غرر الانفساخ بهلاك المعقود عليه؛ لأنه إذا هلك المعقود عليه قبل القبض يبطل البيع الأول فينفسخ الثاني؛ لأنه بناه على الأول، وقد «نهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن بيع فيه غرر» ، وسواء باعه من غير بائعه، أو من بائعه؛ لأن النهي مطلق لا يوجب الفصل بين البيع من غير بائعه وبين البيع من بائعه، وكذا معنى الغرر لا يفصل بينهما فلا يصح الثاني، والأول على حاله. ولا يجوز إشراكه، وتوليته؛ لأن كل ذلك بيع.
بدائع الصنائع: (242/4، ط: زکریا)
ولا یشترط القبض بالبراجم؛ لأن معنی القبض ہو التمکن والتخلّي وارتفاع الموانع عرفًا وعادةً حقیقةً.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی