سوال:
عرض گزارش یہ ہے کہ ہمارے علم میں ہے کہ کسی مسلمان کا دوسرے مسلمان کو بھالوں، گڑیا اور ہر وہ کھلونا جو جاندار چیز کا عکس ہو، خرید و فروخت کرنا جائز نہیں ہے، لیکن اگر کسی مسلمان کی دکان دارالحرب (امریکہ) وغیرہ جیسے دوسرے ممالک میں ہو تو کیا مسلمان کسی کافر کو مذکورہ بالا اشیاء فروخت کرسکتا ہے اور خود کسی کمپنی سے یہ اشیاء اس نیت کے ساتھ خرید سکتا ہے کہ میں آگے یہ اشیاء کسی کافر کو دارالحرب میں فروخت کروں گا؟
جواب: واضح رہے کہ جو کھلونے باقاعدہ جاندار کے مجسمہ یا بت کی طرح ہوں، جیسے بھالو، گڑیا وغیرہ، ایسے کھلونے کی خرید و فروخت کا معاملہ مسلمان یا کافر کسی کے ساتھ کہیں بھی جائز نہیں ہے، کیونکہ ان کے عین کے ساتھ گناہ کا تعلق ہے، اور جس چیز کے عین کے ساتھ گناہ کا تعلق ہوتا ہے، اس کی خرید و فروخت کسی کے ساتھ بھی جائز نہیں ہوتی، لہذا پوچھی گئی صورت میں دار الحرب میں بھی کسی غیر مسلم کو جاندار کے مجسمے کے کھلونے بیچنا یا غیر مسلم کو بیچنے کی نیت سے خریدنا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن أبي داؤو: ( 162/1، رقم الحديث: 227، ط: دار الرسالة العالمية )
عن علي عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "لا تدخل الملائكة بيتا فيه صورة ولا كلب ولا جنب".
مرقاۃ المفاتیح: (324/8، ط: امدادیۃ)
"قال أصحابنا وغیرہم من العلماء: تصویر صورۃ الحیوان حرام شدید التحریم، وہو من الکبائر؛ لأنہ متوعد علیہ بھذا الوعید الشدید المذکور في الأحادیث سواء صنعہ في ثوب، أوبساط، أو درہم، أودینار، أو غیر ذلک، وأما تصویر الشجر، والرجل، والجبل وغیر ذلک فلیس بحرام، ہذا حکم نفس التصویر، وأما إتخاذ المصور بحیوان، فإن کان معلقاً علی حائط سواء کان لہ ظل أم لا، أو ثوبًا ملبوسًا، أو عمامۃ، أونحو ذلک فہو حرام".
الموسوعة الفقهية الكويتية: (208/20، ط: دار السلاسل )
ذهب جمهور الفقهاء: إلى أن الربا حرام في دار الحرب كحرمته في دار الإسلام، فما كان حراما في دار الإسلام، كان حراما في دار الحرب، سواء بين المسلمين وبين أهل الحرب، أو بين مسلمين لم يهاجرا من دار الحرب، وبهذا قال الشافعي، ومالك، وأبو يوسف من الحنفية، وقالوا: إن النصوص في تحريم الربا عامة، ولم تفرق بين دار ودار، ولا بين مسلم وغيره.
امداد الاحکام: (398/3، مکتبہ دارالعلوم کراچی )
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی