سوال:
ایک شخص نماز نہیں پڑھتا ہے، روزے بھی نہیں رکھتا ہے اور مال دار ہونے کے باوجود حج اور زکوٰۃ کی ادائیگی بھی نہیں کرتا ہے، لیکن نفلی عبادت مثلا: ایصال ثواب وغیرہ کرتا ہے۔ آیا اس شخص کی نفلی عبادت اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہوگی؟
جواب: واضح رہے کہ فرائض کا اہتمام ہر حال میں ضروری ہے، تاہم نفلی عبادت کی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ نوافل کی قبولیت کا انحصار اور دار و مدار فرائض کے مکمل ہونے كی شرط پر موقوف نہیں ہے، لہٰذا سوال میں ذکر کردہ شخص پر نماز، روزے، زکوٰۃ اور حج کا اہتمام ضروری اور فرض ہے، ان میں کوتاہی کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔ تاہم اگر ایسا شخص محض اللہ کی رضا کے لیے کبھی نفلی اعمال کرلیتا ہے تو ان شاء اللہ وہ اپنی جگہ مقبول ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذي: (رقم الحديث: 413، ط: دار الغرب الإسلامي)
عن حريث بن قبيصة، قال: قدمت المدينة، فقلت: اللهم يسر لي جليسا صالحا، قال فجلست إلى أبي هريرة، فقلت: إني سألت الله أن يرزقني جليسا صالحا، فحدثني بحديث سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم لعل الله أن ينفعني به، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن أول ما يحاسب به العبد يوم القيامة من عمله صلاته، فإن صلحت فقد أفلح وأنجح، وإن فسدت فقد خاب وخسر، فإن انتقص من فريضته شيء، قال الرب عز وجل: انظروا هل لعبدي من تطوع فيكمل بها ما انتقص من الفريضة، ثم يكون سائر عمله على ذلك.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی