سوال:
میرا ایک دوست ہے، ہم دونوں مل کر ایک کاروبار شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کاروبار میں میرے دوست کی مکمل سرمایہ کاری ہوگی، میں اس کاروبار میں تجربہ اور محنت فراہم کروں گا۔ میرا دوست اس کام سے ناواقف ہے، جبکہ میرے پاس اپنی کوئی رقم نہیں ہے۔ ہم دونوں نے باہم رضامندی سے مل کر کام کرنے کا ارادہ کیا ہے اور یہ طے کیا ہے کہ نفع میں دونوں برابر کے شریک ہوں گے، لیکن نقصان طے کرنے میں دونوں میں اختلاف ہے۔
میرے دوست کا کہنا ہے کہ نقصان کی صورت میں بھی برابر کی شراکت داری ہوگی، جبکہ میرا کہنا ہے کہ نقصان کی صورت میں محنت اور وقت کا نقصان میری ذمہ ہے اور رقم کا نقصان تم کو برداشت کرنا ہوگا۔ برائے مہربانی آپ ہی اس مسئلہ میں شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
جواب: سوال میں ذکر کردہ طریقہ (ایک فریق کی طرف سے سرمایہ کاری اور دوسرے کی طرف سے محنت اور تجربہ) کے مطابق کاروبار کرنے کو شریعت کی اصطلاح میں "مضاربت" کہا جاتا ہے، جو کہ اصولی طور پر جائز ہے، البتہ اس طریقہ کے مطابق کاروبار کرنے میں محنت کرنے والے کو نقصان میں شریک کرنا درست نہیں ہے، بلکہ اس طرح کے کاروبار میں محنت کرنے والے کو نقصان میں شریک کرنے کی شرط خود بخود لغو اور کالعدم ہوجاتی ہے، اور نقصان کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ ابتداءً نقصان کی تلافی نفع سے کی جائے گی، اگر نقصان نفع سے بھی زیادہ ہو تو پھر نفع کے بعد باقی نقصان کی تلافی اصل سرمائے سے کی جائے گی، تاہم اگر کاروبار میں نقصان مضارب (محنت کرنے والے فریق) کی زیادتی یا کوتاہی کی وجہ سے ہو تو ایسی صورت میں مضارب اس کا ذمہ دار ہوگا۔
لہذا آپ کے دوست کا آپ کو نقصان میں شریک کرنا درست نہیں ہے، بلکہ مذکورہ کاروبار میں نقصان کی تلافی گزشتہ تفصیل کے مطابق کی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
درر الحكام: (461/3، ط: دار الجیل)
"وكل شرط لا يؤدي إلى جهالة الربح فهو باطل والمضاربة صحيحة كشرط الضرر والخسار على المضارب أو كشرطه على المضارب وعلى رب المال"
"ولكن إذا ذكرت الشركة على الإطلاق بأن قيل مثلا الربح مشترك بيننا يصرف إلى المساواة ولا يقال في هذه الصورة إن المضاربة فاسدة لجهالة الربح ؛ لأن لفظ (بين ) يدل على التنصيف والتشريك (الولوالجية )"
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی