سوال:
مفتی صاحب! مسجد کے اندر ایک کمرہ جو مسجد کے مصالح کے لیے بنایا گیا ہو اور مسجد کے لیے وقف کیا گیا ہو تو کیا اس کمرے کو ایک عام آدمی کو رہائش کے لیے دینا شرعا جائز ہے؟ جواب عنایت فرما کر مشکور فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ مسجد کے کمرے عموماً امام مسجد، مؤذن، خادم یا دیگر مصالح مسجد کے لیے ہوتے ہیں، لہذا مسجد کے لیے وقف جگہ صرف مسجد اور اس کے مصالح کے لیے ہی استعمال کی جاسکتی ہے، اس لیے اس جگہ کا کسی اور مقصد کے لیے استعمال شرعاً جائز نہیں ہے، لیکن اگر واقف نے کرایہ کے لیے اور مسجد کی آمدنی کے لیے کمرے بنائے ہوں تو ان کو کرایہ پر دے سکتے ہیں، بشرطیکہ مسجد کو ضرورت نہ ہو اور اس سے مسجد کی بے حرمتی اور نمازیوں کو حرج و تشویش نہ ہوتی ہو، جبکہ کرایہ دار کے لیے آمد و رفت کا راستہ بھی الگ سے ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهداية: (20/3، ط: دار إحياء التراث العربي)
قال:"ومن جعل مسجدا تحته سرداب أو فوقه بيت وجعل باب المسجد إلى الطريق، وعزله عن ملكه فله أن يبيعه، وإن مات يورث عنه" لأنه لم يخلص لله تعالى لبقاء حق العبد متعلقا به، ولو كان السرداب لمصالح المسجد جاز كما في مسجد بيت المقدس.
الهندية: (362/2، ط: دار الفكر)
البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه والأصح أنه لا يجوز كذا في الغياثية.
فتاوی رحیمیہ: (107/9، 108 ط: دار الاشاعت)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی