سوال:
السلام علیکم، حضرت ! ایک سوال یہ معلوم کرنا تھا کہ شریعت میں کسی موقع پر جھوٹ بولنے کی گنجائش ہے ؟ اور اگر ہے تو کن کن مواقوں پر؟ جزاک اللہ
جواب: جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے، لہذا جھوٹ سے بچنا اور سچ کو لازم پکڑنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے، لیکن شریعتِ نے ضرورت کی وجہ سے چند مواقع پر "توریہ" اور "تعریض" کی گنجائش دی ہے۔
ایک موقع یہ ہے کہ جب انسان اپنی یا کسی دوسرے مسلمان کی جان بچانے کے لیے جھوٹ بولنے پر مجبور ہوجائے اور جان بچانے کے لئے اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ ہو دوسرا موقع یہ ہے کہ دو بندوں میں صلح کرانے کی غرض سے جھوٹ بولنا پڑ جائے اور جھوٹ کے بغیر صلح ممکن نہ ہو توجھوٹی بات کہہ کر ان دونوں میں صلح کرادینا جائز ہے اور تیسرا موقع جہاں پر جھوٹ کی اجازت ہے وہ میاں بیوی کی باہمی گفتگو کے اوقات ہیں کہ میاں ،بیوی میں سے ہرایک کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ ایک دوسرے کو خوش کرنے کے لئے ایسی بات کہہ دے جو خلاف واقعہ ہو۔ مثلاً دونوں میں سے کوئی دوسرے سے یہ کہے کہ میں تم سے بے انتہاء محبت کرتا ہوں ،خواہ یہ کہنے والے کے دل میں اس کی محبت اس قدر نہ ہو تو یہ جائز ہے۔
واضح رہے کہ ایسے مواقع بھی پر واضح صریح جھوٹ نہ بولا جائے، بلکہ کوئی ایسا لفظ بول دے،جو صریح جھوٹ بھی نہ ہو اور مقصود بھی حاصل ہوجائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (427/6، ط: سعید)
الْكَذِبُ مُبَاحٌ لِإِحْيَاءِ حَقِّهِ وَدَفْعِ الظُّلْمِ عَنْ نَفْسِهِ وَالْمُرَادُ التَّعْرِيضُ لِأَنَّ عَيْنَ الْكَذِبِ حَرَامٌ قَالَ: وَهُوَ الْحَقُّ قَالَ تَعَالَى - {قُتِلَ الْخَرَّاصُونَ} [الذاريات: ١٠]- الْكُلُّ مِنْ الْمُجْتَبَى وَفِي الْوَهْبَانِيَّةِ قَالَ:وَلِلصُّلْحِ جَازَ الْكِذْبُ أَوْ دَفْعُ ظَالِمٍ ... وَأَهْلِ التَّرَضِّي وَالْقِتَالِ لِيَظْفَرُوا۔
مجمع الانھر: (کتاب الکراھیة، 552/2، ط: دار احیاء التراث العربی)
وَالْكَذِبُ حَرَامٌ إلَّا فِي الْحَرْبِ لِلْخُدْعَةِ وَفِي الصُّلْحِ بَيْنَ اثْنَيْنِ وَفِي إرْضَاءِ الْأَهْلِ وَفِي دَفْعِ الظَّالِمِ عَنْ الظُّلْم
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی