سوال:
میرا ایک بیٹا جو اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہے۔ وہ والد صاحب کی وفات کے بعد اپنی والدہ سے گاہے بگاہے اپنے ساتھ نا انصافی کئے جانے (جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے) کا بہانہ بنا کر اپنی والدہ سے بد سلوکی اور بد لحاظی کرتا ہے، یہاں تک کہ اپنے بچوں، اپنے بہن بھائیوں اور اپنے سسرال والوں کے سامنے بھی اپنی والدہ کی بے عزتی کرتا ہے، ان پر چیختا چلاتا ہے، اس کی والدہ اس کی اس بد سلوکی اور خصوصاً اپنے سسرال والوں اور دوسروں کے سامنے بے عزتی پر سخت رنجیدہ رہتی ہے، ایسے شخص کے لیے شریعت میں کیا حکم ہے؟ کیا ایسے شخص کو اس کے دوسرے بہن بھائی جو اس سے چھوٹے ہیں، اس بابت تنبیہ کر سکتے ہیں اور کیا اس کے اس مسلسل عملِ بد کی وجہ سے اس کے ساتھ قطع تعلق کرسکتے ہیں جب تک کہ وہ اپنی والدہ سے کی گئی بد سلوکی سے توبہ نہ کرلے اور والدہ سے معافی نہ مانگ لے اور آئندہ بھی ایسی حرکت سے باز رہنے کا عہد نہ کرلے یا پھر ایسے شخص کے لیے مزید کیا حکم ہے؟
تنقيح: محترم! اس بات کی وضاحت کریں کہ اس بیٹے کے اس رویے کی کیا وجہ ہے؟ اور ان کو والدہ اور گھر والوں سے کس بنیاد پر اور کیا شکایات ہیں؟ کیا ان کو کوئی مرض لاحق ہے؟
جواب تنقیح:
شخص مذکورہ کو کوئی ذہنی اور جسمانی مرض لاحق نہیں ہے. ماں سے بدسلوکی کی وجہ بھی اکثر سسرال والوں کیطرف سے پیدا کی گئی غلط فہمیاں اور اسی طرح کے معاملات کے سبب ہے. ماں تو اس کی اسی بد سلوکی کے سبب اس سے بات کرنے سے بھی ڈرتی ہے. میں خود اس کی بدکلامی اور بدسلوکی کا چشم دید گواہ ہوں جو اس نے حال ہی میں اپنی ساس، سالی اور دیگر سسرال کے افراد کے سامنے اپنے ہی گھر میں آئی ہوئی اپنی ماں سے کی ہے، ماں نے اسے صرف یہی کہا کہ تیرا بھائی تیری ہی شرائط پر تیرے ساتھ صلح کرنے آیا ہے لہذا اب صلح کرلو..
اٹیچڈ فائل میں آپ سے لیا گیا ایک فتویٰ (https://alikhlasonline.com/detail.aspx?id=9989) ہے جس میں بیان کردہ مسئلہ کے تحت شخص مذکورہ اور اس کے چھوٹے بھائی نے اپنی ایک بہن اور ایک بھائی سے قطع تعلق کیا ہوا تھا (اور ماں سے ملنے آنے پر بھی پابندی عائد کی ہوئی تھی، جبکہ ماں اس شخص کے ساتھ والے پورشن میں رہنے والے چھوٹے بھائی کے ساتھ اپنے وراثتی مکان کے اپنے ذاتی حصہ کے کمرہ میں رہائش پذیر ہے) ، اس بنا پر کہ ان بہن بھائی کا تعلق ایسے لوگوں سے ہے کہ جنہوں نے طلاق دہندہ کی حمایت کرنے والے لوگوں سے انھیں غلط قرار دے کر بھی قریبی رشتہ داری کے سبب طلاق دہندہ کے فوت ہو جانے کے بعد صلح کر لی تھی. مزید شخص مذکورہ ان بہن بھائی کو چھوٹے بھائی کے ساتھ مل کر مجبور کرتا تھا کہ تم لوگ بھی ان سب سے قطع تعلق کرو اور ہمیں اس بابت حلف نامہ لکھ کر سائن کرکے دو..
ماں اس بیٹے کو گذشتہ دو سال سے گاہے بگاہے سمجھا رہی تھی کہ آپ اپنے بہن بھائیوں سے قطع تعلق نہ کرو.. ایک سبب بد سلوکی کا یہ بھی ہے اور اس کے علاوہ اور بھی کئی معاملات میں اپنی ماں کو غلط ثابت کرنا اور سسرال والوں کو ترجیح دینا اس کا معمول ہے، جبکہ ماں اپنے مرحوم شوہر کی پینشن پر اپنا تمام خرچ خود چلاتی ہے، کھانا پکانا اور دیگر کام کاج خود ہی کرتی ہے، بلکہ شخص مذکورہ کے تمام بچوں کو ماہانہ خرچی اور ایک بیٹی کے تعلیمی اخراجات کا کچھ حصہ بھی ادا کرتی ہے۔
امید ہے تمام بیان کردہ تفصیل معاملہ کی وضاحت کے لیے کافی ہوگی۔
جواب: قرآن وسنت میں ایمان کے بعد جن چیزوں کی سب سے زیادہ تاکید کی گئی ہے، ان میں سے ایک والدین کے ساتھ "حسن سلوک" ہے، چنانچہ والدین کی نافرمانی کو اکبر الکبائر (بڑے سے بڑے گناہوں) میں سے قرار دیا گیا ہے اور خاص طور پر ماں کا حق سب سے بڑھ کر ہے، لہذا اگر سوال میں ذکر کردہ بیانیہ درست اور حقائق کے مطابق ہے تو اس بیٹے کا اپنی ماں کی نافرمانی کرنا اور ماں اور دیگر بہن بھائیوں سے بد سلوکی کرنا سخت گناہ ہے، اس پر اس کو توبہ و استغفار کرنا اور ماں سے معافی مانگنا لازم ہے، نیز اس کو جو شکایات ہیں، وہ نرمی اور احترام کے ساتھ بہن بھائیوں اور ماں کے سامنے رکھ دے اور ان کو بھی چاہیے کہ اس کی شکایات کھلے دل سے سن کر آپس میں محبت کے ساتھ ان کو حل کرنے کی کوشش کریں، لیکن اگر وہ ایسا کرنے کے لیے تیار نہ ہو اور اپنے اس رویہ سے باز بھی نہ آئے تو اصلاح کی غرض سے اس سے وقتی طور پر بقدر ضرورت قطع تعلقی کی گنجائش ہے۔
واضح رہے کہ جہاں کچھ لوگ اکھٹے رہتے ہوں، وہاں ہر ایک کے فطری مزاج اور طبعیت کے مختلف ہونے کی وجہ سے ناگواری اور ناراضگی کا ہونا ایک فطری بات ہے، لیکن اگر ناراضگیوں کو موقع پر ہی آپس میں مل بیٹھ کر حل کرلیا جائے تو بد گمانی اور ناقابل تلافی نقصان سے بچا جاسکتا ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ خوشگوار خاندانی نظام کی بنیاد محبت اور ایک دوسرے کی ہمدردی اور خیر خواہی پر ہے، اس لیے پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کے خلاف بولنے اور الزامات لگانے سے بچنا چاہیے اور اگر کہیں کوئی بات سامنے آجائے تو اس پہ فورا یقین کرنے کے بجائے پہلے اس کی مکمل طور پر ہر ممکن تحقیق کرلی جائے اور پھر حل تلاش کرلیا جائے، اس طریقے سے ان شاءاللہ زندگی خوشگوار اور خوشحال رہے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (الإسراء، الایة: 23، 24)
وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا o وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا o
التفسير المنير للزحيلي: (66/5، ط: دار الفكر المعاصر)
الإحسان إلى الوالدين: قرن اللّه تعالى الأمر ببر الوالدين بعبادته وتوحيده في مواضع كثيرة من القرآن، كهذه الآية، وآية: وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً [الإسراء: 23] وآية: أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ [لقمان: 14].
وبر الوالدين: طاعتهما في معروف والقيام بخدمتهما، والسعي في تحصيل مطالبهما والبعد عن كل ما يؤذيهما لأنهما السبب الظاهر في وجود الأولاد، وتربيتهم بالرحمة والإخلاص. قال ابن العربي: بر الوالدين ركن من أركان الدين في المفروضات، وبرهما يكون في الأقوال والأعمال، أما في الأقوال فكما قال اللّه تعالى: فَلا تَقُلْ لَهُما أُفٍّ وَلا تَنْهَرْهُما [الإسراء: ٢٣] فإن لهما حق الرحم المطلقة، وحق القرابة الخاصة.
4- الإحسان إلى القرابة: وهو صلة الرحم كالأخ والأخت والعم والخال وأبنائهم، وذلك بمودتهم ومواساتهم، على نحو ما ذكر في أول السورة: وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [الآية 1]. وذلك يؤدي إلى ترابط الأسرة وتقوية معنوياتها وتساندها، فيقوى المجتمع، وتتقدم الدولة.
عمدة القاری: (137/22، ط: دار احیاء التراث العربی)
قوله: (ولا يحل لمسلم) إلى آخره فيه التصريح بحرمة الهجران فوق ثلاثة أيام، وهذا فيمن لم يجن على الدين جناية، فأما من جنى عليه وعصى ربه فجاءت الرخصة في عقوبته بالهجران كالثلاثة المتخلفين عن غزوة تبوك فأمر الشارع بهجرانهم فبقوا خمسين ليلة حتى نزلت توبتهم، وقد آل رسول الله -صلى الله عليه وسلم- من نسائه شهرا وصعد مشربته ولم ينزل إليهن حتى انقضى الشهر.
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالافتاء الإخلاص،کراچی