سوال:
مفتی صاحب! جائز معاملات سے متعلق ماضی کے فیصلے جو آگے چل کر غلط ثابت ہوں، کیا ان پر ندامت یا افسوس کرنا گناہ ہے، مثلاً: دس سال پہلے میں نے فلاں مکان یا دکان کیوں بیچا، کاش نہ بیچا ہوتا یا کاش فلاں کاروبار نہ کیا ہوتا تو اتنا نقصان نہ ہوتا وغیرہ؟
جواب: جائز معاملات میں ماضی کے غلط فیصلوں پر مثبت انداز میں ندامت یا افسوس کا اظہار کرنا گناہ نہیں ہے، غلطیوں پر ندامت ایک فطری اور مثبت جذبہ ہے، یہ جذبہ انسان کو اپنی غلطیوں سے سیکھنے اور مستقبل میں بہتر فیصلے کرنے میں مدد کرتا ہے۔
تاہم اس ندامت یا پچھتاوے میں مایوسی یا اس درجہ بے اعتدالی درست نہیں ہے کہ انسان ماضی کو دل پر لے کر اس میں الجھا رہے اور تقدیر کو یکسر نظر انداز کردے، بلکہ اسے چاہیے کہ اپنے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے بہتری کی طرف آگے بڑھتا رہے، اور ہمیشہ اللہ سے خیر، رحمت، فضل اور عافیت کی دعا کرتا رہے اور اپنے معاملات میں استخارہ کرنے کی عادت بنانے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ اللہ پاک سے خیر و عافیت کی دعا مانگتا رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (الزمر، الآية: 53)
قُلْ يَاعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ o
سنن أبي داود: (رقم الحديث: 1538، ط: دار الرسالة العالمية)
عن جابر بن عبد الله قال: كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يعلمنا الاستخارة كما يعلمنا السورة من القرآن، يقول لنا: "إذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة، وليقل: اللهم إني أستخيرك بعلمك، وأستقدرك بقدرتك، وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر، وتعلم ولا أعلم، وأنت علام الغيوب، اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر - يسميه بعينه الذي يريد - خير لي في ديني ومعاشي ومعادي وعاقبة أمري، فاقدره لي، ويسره لي، وبارك لي فيه، اللهم وإن كنت تعلمه شرا لي، مثل الأول، فاصرفني عنه، واصرفه عني، واقدر لي الخير حيث كان، ثم رضني به" أو قال: "في عاجل أمري وآجله".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی