سوال:
مفتی صاحب! اکثر خواتین اپنی اولاد کی حمایت میں حق اور سچ جاننے کے باوجود بھی کسی اور کے خلاف جھوٹی گواہی دے دیتی ہیں، اس بارے میں کیا وعید ہے؟ اسی طرح اکثر بیٹیاں سچ جانتی ہیں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط ہے، مگر وہ صرف اس وجہ سے اپنی ماں کی حمایت کرتی ہیں یا پھر ماں کے خلاف کسی اور پر تہمت یا برائی پر حق اور سچ جاننے کے باوجود بھی خاموشی اختیار کرتی ہیں کہ کہیں ماں کے خلاف جانے سے ماں کی دل آزاری نہ ہو یا والدین کو اف بھی کہنے سے اللہ ناراض ہوگا یا والدین کی تعظیم و تکریم میں کمی یا گستاخی نہ ہو جائے، اس وجہ سے کسی اور کے ساتھ حق تلفی اور اس کی ماں کے ہاتھوں تحقیر و تذلیل پر کچھ نہیں کہتیں، بلکہ کافی لوگ تو اس بات کو فخریہ بیان کرتے ہیں کہ فلاں کی بیٹی تو اپنی والدہ کی اتنی عزت کرتی تھی کہ اپنی ماں کے ہر ناجائز اور غلط بات میں بھی ساتھ دیتی تھی۔ اپنی ماں کے لیے سب سے لڑتی تھی۔ اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب: اسلام ہمیشہ سے عدل و انصاف کی بات کرتا ہے، ظلم و زیادتی کرنے اور ظالم کا ساتھ دینے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے، دین اسلام نے والدین، اولاد اور بہن بھائیوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے، لیکن اس حمایت اور مدد کی ایک حد بھی مقرر فرمائی ہے، ایک حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں بہترین شخص اپنے خاندان کا دفاع کرنے والا ہے، جب تک کہ وہ گناہ نہ کرے". (ابو داؤد: 5120)
اس حدیث میں واضح طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہ کے معاملہ میں خاندان کی حمایت کرنے سے منع فرمایا ہے، کیونکہ ظلم اور ناحق معاملے میں اپنی قوم کا ساتھ دینا ہی درحقیقت ممنوعہ عصبیت ہے۔
اسی طرح قرآن مجید میں کسی کی دشمنی اور عداوت کی وجہ سے اس پر ظلم کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ناانصافی کرو." (سورہ المائدہ، آیت نمبر: 8)
اس لیے آدمی کو چاہیے کہ انصاف سے کام لے اور حق اور سچ کا ساتھ دے اور جب عزیز واقارب میں کوئی غلط کررہا ہو تو اسے اس غلط کام سے روکے اور معاملہ سمجھنے میں اس کی مدد کرے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اسی کی تعلیم دی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم، صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! جب وہ مظلوم ہوتا ہے تو میں اس کی مدد کرتا ہوں، لیکن جب وہ ظالم ہو تو پھر کیسے اس کی مدد کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے ظلم کرنے سے روکو یہی اس کی مدد ہے۔"(ترمذی: 2255)
بہرحال آدمی کو ہمیشہ حق اور سچ کا ساتھ دینا چاہیے، ظلم اور ناحق معاملے میں کسی کا ساتھ دینا اور اس کی طرف سے جھگڑنا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے، اس لیے اس سے پرہیز کرنا چاہیے، حدیث نبوی ہے:"جو شخص کسی کو باطل جانتے ہوئے بھی اس کی طرف سے جھگڑا کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی میں رہتا ہے تاوقتیکہ باطل کی طرف سے جھگڑنا چھوڑ نہ دے۔" (ابو داؤد: 3597)
مذکورہ بالا آیات اور احادیث سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی ہے کہ انسان کو حق گو ہونا چاہیے، تاہم یہ ضروری ہے کہ ان تمام معاملات میں حکمت، بصیرت اور مصلحت کے ساتھ حق گوئی کو اختیار کیا جائے، اور ہر ممکن ایسے طریقوں سے اجتناب کیا جائے جس میں فساد اور نزاع کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو، تاکہ مخاطبین کے لئے آپ کی بات کو قبول کرنا آسان ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (سورۃ المائدۃ، رقم الآیة: 8)
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا كُوۡنُوۡا قَوَّا امِيۡنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۖ وَلَا يَجۡرِمَنَّكُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰٓى اَ لَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا هُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰى وَاتَّقُوا اللّٰهَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَO
الجامع للترمذی: (رقم الحدیث: 2255، ط: دار الحرب الاسلامی)
عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " انصر اخاك ظالما او مظلوما "، قلنا: يا رسول الله، نصرته مظلوما، فكيف انصره ظالما؟ قال: " تكفه عن الظلم فذاك نصرك إياه"۔
سنن ابی داؤد: (رقم الحدیث: 5119، ط: دارالرسالة العالمیة)
عَنْ بِنْتِ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، أَنَّهَا سَمِعَتْ أَبَاهَا، يَقُولُ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْعَصَبِيَّةُ ؟، قَالَ: أَنْ تُعِينَ قَوْمَكَ عَلَى الظُّلْمِ.
سنن ابی داؤد: (رقم الحدیث: 5120، ط:دارالرسالة العالمیة)
عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ يُحَدِّثُ، عَنْ سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ الْمُدْلِجِيِّ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: خَيْرُكُمُ الْمُدَافِعُ عَنْ عَشِيرَتِهِ مَا لَمْ يَأْثَمْ، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: أَيُّوبُ بْنُ سُوَيْدٍ ضَعِيفٌ.
سنن ابی داؤد: (رقم الحدیث: 3597، ط:دارالرسالة العالمیة)
عَنْ يَحْيَى بْنِ رَاشِدٍ، قَالَ: جَلَسْنَا لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، فَخَرَجَ إِلَيْنَا، فَجَلَسَ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: مَنْ حَالَتْ شَفَاعَتُهُ دُونَ حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ، فَقَدْ ضَادَّ اللَّهَ، وَمَنْ خَاصَمَ فِي بَاطِلٍ وَهُوَ يَعْلَمُهُ, لَمْ يَزَلْ فِي سَخَطِ اللَّهِ حَتَّى يَنْزِعَ عَنْهُ، وَمَنْ قَالَ فِي مُؤْمِنٍ مَا لَيْسَ فِيهِ، أَسْكَنَهُ اللَّهُ رَدْغَةَ الْخَبَالِ، حَتَّى يَخْرُجَ مِمَّا قَالَ۔
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی