عنوان: کرنسی کے باہمی تبادلہ (Currency Exchange) کے کاروبار میں سرمایہ کاری کرنا (14537-No)

سوال: ہمارے رشتہ دار دبئی میں رہتے ہیں، وہ کرنسی ایکسچینج کا کاروبار کرتے ہیں، یعنی وہ بینک اکاؤنٹس کے ذریعے روپے کی صورت میں پاکستانی رقم بھیجتے ہیں اور مقررہ وقت کے بعد طے شدہ ریٹ پر دبئی میں درہم حاصل کرتے ہیں۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ہم ان کے ساتھ سرمایہ کاری کرتے ہیں؟ ہمارے لیے حلال اور جائز ہے یا نہیں؟

جواب: مختلف ممالک کی کرنسیوں کا کمی بیشی کے ساتھ باہمی تبادلہ (Exchange) جائز ہے، بشرطیکہ دونوں طرف سے کرنسیاں ادھار نہ ہوں، بلکہ معاملہ کرتے وقت کسی ایک جانب کی کرنسی پر قبضہ کرلیا جائے، نیز اگر حوالہ کا کام کیا جائے تو اس کی اجرت الگ سے واضح طور پر مقرر کر لی جائے۔
لہذا ان شرائط کے ساتھ اگر کاروبار ہو رہا ہو تو آپ ان کے ساتھ شرعی اصولوں کے مطابق سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

تكملة فتح الملهم: (حكم الأوراق النقدية، 589/1-590، ط: دار العلوم کراتشی)
"وأما الأوراق النقدية وهي التي تسمى "نوت"......فالذين يعتبرونها سندات دين، ينبغي أن لا يجوز عندهم مبادلة بعضها ببعض أصلا، لاستلزام بيع الدين بالدين، ولكن قدمنا هناك أن المختار عندنا قول من يجعلها أثمانا، وحينئذ نجرى عليها أحكام الفلوس النافقةسواء بسواء وقدمنا آنفا أن مبادلة الفلوس بجنسها لايجوز بالتفاضل عند محمد رحمة الله ينبغى أن يفتى بهذا القول في هذا الزمان سدا لباب الربا ،وعليه فلايجوز مبادلة الأوراق النقدية بجنسها متفاضلا، ويجوز إذا كانت متماثلا.....وأما العملة الأجنبية من الأوراق فهي جنس آخر، فيجوز بالتفاضل، فيجوز بيع ثلاث ربيات باكستانية بريال واحد سعودى

الدر المختار: (باب الربا، 179/5، ط. دار الفكر)
(باع فلوسا بمثلها أو بدراهم أو بدنانير، فإن نقد أحدهما جاز) وإن تفرقا بلا قبض أحدهما لم يجز

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 117 Jan 09, 2024
Currency Exchange ke karobar mein sarmaya kari karna

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.