سوال:
مفتی صاحب! پوچھنا یہ ہے کہ: 1) میں آفس میں کام کرتا ہوں، آفس والوں نے نماز پڑھنے کی جگہ مختص کی ہوئی ہے، جہاں پر آفس اسٹاف نماز پڑھتے ہیں، کیا یہ درست عمل ہے؟
2) جب وہاں فرض نماز کا وقت ہوتا ہے تو جب تک باس نہیں آتے تب تک جماعت کھڑی نہیں ہوتی، کبھی کبھار ہم لوگ مل کر جماعت کھڑی کر لیتے ہیں، اس پر باس سے بحث بھی ہوچکی ہے، اس کی وجہ سی میری نوکری بھی جاسکتی ہے، اب میں اسی وجہ سے جب تک باس نہیں آتے جماعت کھڑی نہیں کرتا اور آفس اسٹاف بھی انتظار کرتے رہتے ہیں۔ اس مسئلہ میں رہنمائی فرمائیں۔
جواب: 1) اگر قریب میں کوئی مسجد نہ ہو جہاں با آسانی آفس کا عملہ باجماعت نماز پڑھ سکتا ہو، تو ایسی صورت میں آفس میں مصلّیٰ (جائے نماز ) بنانا جائز بلکہ اچھا ہے، البتہ آفس میں باجماعت نماز پڑھنے کی صورت میں جماعت سے نماز پڑھنے کا ثواب تو ملے گا، لیکن مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کا ثواب نہیں ملے گا۔
2) بہتر یہ ہے کہ سب مل کر باس (Boss) کے مشورے سے ہر نماز کا وقت متعین کرلیں، پھر اس وقت میں باس سمیت سب پہنچنے کی کوشش کریں، لیکن اس کے بعد بھی اگر باس کو کسی عذر کی وجہ سے آنے میں تاخیر ہوجائے تو ان کے لیے تھوڑی دیر انتظار کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ نماز کے وقت میں گنجائش ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (57/1، ط: دار الكتب العلمية)
رئيس المحلة لا ينتظر ما لم يكن شريرا والوقت متسع.
الفتاوى الهندية: (57/1، ط: المطبعة الكبرى الأميرية بولاق، القاهرة)
وَيَنْتَظِرُ الْمُؤَذِّنُ النَّاسَ وَيُقِيمُ لِلضَّعِيفِ الْمُسْتَعْجِلِ وَلَا يَنْتَظِرُ رَئِيسَ الْمَحَلَّةِ وَكَبِيرَهَا. كَذَا فِي مِعْرَاجِ الدِّرَايَةِ.
حاشية الطحطاوي على الدر المختار: (220/1، ط: دار المعرفة)
"و أما الانتظار قبل الشروع فى غير مايكره تاخيره كمغرب وعند ضيق فالظاهر عدم الكراهة ولولمعين إلا إذا ثقل على القوم."
المحيط البرهاني: (206/6، ط: دار الكتب العلمية)
قال أبو حنيفة: لا يصير مسجدًا حتى يقول: صلوا فيه جماعة أبدًا، ولو أمر القوم أن يصلوا فيه جماعة صلاة أو صلوات يومًا أو شهرًا لا يكون مسجدًا حتى يقول ما بيناه من القول.
وذكر الصدر الشهيد في «واقعاته» في باب العين من كتاب الهبة والصدقة رجل له أرض ساحة لا بناء فيها، أمر قومًا أن يصلوا فيها بجماعة، فهذا على ثلاثة أوجه: أما إن أمرهم بالصلاة فيها أبدًا نصًا بأن قال: صلوا فيها أبدًا أو أمرهم مطلقًا ونوي الأبد وفي هذين الوجهين صارت الساحة مسجدًا لو مات لا يورث عنه، وأما إن وقت الأمر باليوم أو الشهر أو السنة وفي هذا الوجه لا تصير الساحة مسجدًا لو مات تورث عنه.
فتاوى محموديه: (466،465/6، ط: مكتبه فاروقيه)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی