سوال:
2005 میں والد صاحب نے اپنا مکان بیچ کر چھ ماہ کرائے پر رہے، مکان کی قیمت 220000 تھی، اس قیمت میں مکان ملنا مشکل تھا، چھوٹے بیٹے (نعمان احمد) نے والد کی رقم میں 367000 ملا کر قاسم آباد کراچی میں ایک مکان خریدا، یہ رقم بطور احسان نہیں تھی، یہ بات میں نے رقم دیتے ہوئے والدہ کو کہی تھی اور والدہ اس بات پر مجھ سے ناراض بھی ہوئی تھیں، اب والدین حیات نہیں ہیں، معلوم یہ کرنا ہے کہ وراثت صرف والد کے حصہ میں جاری ہوگی یا مکمل مکان میں جاری ہوگی؟
تنقیح: کیا والد صاحب کے تمام ورثاء (آپ کی والدہ، تمام بھائی اور بہنیں) اس بات پر متفق و راضی ہیں کہ آپ نے یہ رقم بطورِ احسان نہیں دی تھی، بلکہ بطورِ قرض دی تھی؟ کیا وہ اس بات کی گواہی دینے کے لیے تیار ہیں؟
جواب تنقیح: جی تمام ممبر اس بات کے گواہ ہیں کہ میں نے یہ رقم بطورِ احسان نہیں دی تھی۔
جواب: واضح رہے کہ اگر کوئی وارث والد صاحب کے ساتھ مکان خریدنے میں پیسے دیتے وقت کوئی وضاحت نہیں کرے، (نہ ہدیہ کی، نہ قرض کی اور نہ شراکت کی) تو یہ پیسے ہدیہ (گفٹ) سمجھے جاتے ہیں، اور اس کو ان پیسوں کے مطالبے کا حق حاصل نہیں ہوتا ہےِ اور اگر (قرض یا شراکت کی) وضاحت کرکے دے تو پھر مطالبہ کا حق حاصل ہوتا ہے۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں اگر واقعتاً والد صاحب کے ورثاء اس بات کے گواہ ہیں کہ آپ نے مکان میں پیسے ملاتے وقت والد صاحب کو یہ پیسے قرض کے طور پر دیے تھے تو اس صورت میں آپ کو یہ پیسے واپس ملیں گے اور اگر ورثاء اس بات کے گواہ ہیں کہ آپ نے یہ رقم والد صاحب کے ساتھ مکان میں شراکت کے طور پر لگائی تھی تو رقم کے بقدر فیصد مکان میں حصہ آپ کو ملے گا اور اس کے بعد بقیہ مکان یا اس کی قیمت میراث میں تقسیم ہوگی، جس میں بطورِ وارث آپ کو بھی حصہ ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
تنقيح الفتاوى الحامدية: (155/2، ط: دار المعرفة)
والأصل أن من بنى في دار غيره بناء وأنفق في ذلك بأمر صاحبه كان البناء لصاحب الدار وللباني أن يرجع على صاحب الدار بما أنفق ا ه.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی