سوال:
اگر کوئی شخص قسم کھانے سے پہلے اسے لکھے تاکہ بعد میں اس کو یاد رہے کہ کن الفاظ سے قسم کھائی تھی تو سوال یہ ہے کہ کیا لکھتے ہوئے قسم منعقد ہوجائے گی، اگرچہ اس نے ابھی کھانے کی نیت نہیں کی اور نہ ہی کھائی ہے، بس لکھی ہے تاکہ بعد میں کھا سکے؟
اسی طرح کسی کسی کی لکھتے ہوئے منہ سے پڑھنے کی عادت ہوتی ہے تو اگر وہ عادت کے مطابق لکھتے ہوئے منہ سے قسم کے الفاظ بھی ادا کر رہا تھا تو اس صورت میں قسم کب سے منعقد ہوگی؟
جواب: واضح رہے کہ قسم کی نیت کے بغیر بھی اگر کوئی شخص قسم کے الفاظ کہہ دے یا صراحت کے ساتھ واضح طور پر لکھ دے تو اس سے قسم منعقد ہوجاتی ہے، نیز لکھنے کی صورت میں قسم منعقد ہونے کے لیے الفاظِ قسم کا تلفظ ضروری نہیں ہے، بلکہ قسم کے الفاظ لکھتے ہی قسم منعقد ہوجائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (704/3، ط: دار الفکر)
وركنها اللفظ المستعمل فيها
الهداية: (317/2، ط: دار احياء التراث العربي)
قال: " والقاصد في اليمين والمكره والناسي سواء " حتى تجب الكفارة لقوله عليه الصلاة والسلام ثلاث جدهن جد وهزلهن جد النكاح والطلاق واليمين والشافعي رحمه الله يخالفنا في ذلك وسنبين في الإكراه إن شاء الله تعالى.
فتح القدیر: (64/5، ط: شركة مكتبة)
(قوله: والقاصد في اليمين والمكره عليه والناسي) وهو من تلفظ باليمين ذاهلا عنه ثم تذكر أنه تلفظ به. وفي بعض النسخ: الخاطئ وهو من أراد أن يتكلم بكلام غير الحلف فجرى على لسانه اليمين، فإذا حنث لزمته الكفارة.
بدائع الصنائع: (100/3، ط: دار الكتب العلمية)
وكذا التكلم بالطلاق ليس بشرط فيقع الطلاق بالكتابة المستبينة وبالإشارة المفهومة من الأخرس لأن الكتابة المستبينة تقوم مقام اللفظ والإشارة المفهومة تقوم مقام العبارة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی